یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کریں
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنتے وقت قوم سے کہا گیا تھا کہ کشمیر کاز کو بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا اور آج جب یہ جنگ ختم ہو چکی ہے عالم یہ ہے کہ نریندر مودی کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کیے پورے دو سال ہو چکے ہیں۔ کیا ہمیں کچھ احساس ہے کہ کشمیر کاز کس حال میں ہے؟
پرویز مشرف کا قوم سے وہ خطاب ہم طلبہ نے فیصل مسجد کے پاس سبزہ زار میں بیٹھ کر سنا تھا۔ قوم کو بتایا گیا کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے کشمیر کاز کو بچا سکیں۔
آج یہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور قوم کی ہتھیلی پر یہ سوال رکھا ہے کہ کیا کشمیر کاز کو بچا لیا گیا ہے؟ کوئی ہے جو جواب دے سکے؟ ہم نے اس جنگ کا حصہ بنتے وقت کچھ اہداف طے کیے۔
کشمیر کاز کا تحفظ ان میں بنیادی نکتہ تھا۔ کیا ہم قومی اسمبلی یا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ماہرین کو بلا کر اس پہلو پر تفصیلی بات کریں کہ امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے کے باوجود یہ ہدف کیوں حاصل نہیں ہو سکا؟
ہماری خارجہ پالیسی میں کہاں، کیا اور کتنی خامیاں تھیں کہ ہم اس جنگ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بھی بنے، لوگ بھی مروائے، امن بھی گنوایا، معیشت بھی برباد کروائی اور مقصد بھی حاصل نہ ہو سکا۔ جنگوں کے اختتام پر حساب سود و زیاں دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کب ہو گا؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارا انتخاب نہ تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ ہماری مجبوری ہے۔ ہم ساتھ نہ دیتے تو امریکہ بھارت سے معاملہ کر سکتا تھا۔ اس صورت میں خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جاتا اور ہماری کشمیر پالیسی کو دھچکہ پہنچتا۔
سوال یہ ہے کہ جنگ کا حصہ بن کر جو نتائج ہمارے سامنے ہیں، وہ کیا ہیں؟ کیا جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑا نہیں جا رہا اورکیا کشمیر پر ہم اپنی تاریخ کے بدترین چیلنج سے دوچار نہیں ہو چکے؟
بھارت نے بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا۔ شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کی صورت حال میں یک طرفہ تبدیلی کی، سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے متنازع خطے کو اپنا حصہ قرار دے دیا، حق خود ارادیت کے آفاقی اصول کی نفی کر دی۔
فرض کریں ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ نہ بنے ہوتے تو کیا ہو جاتا؟ یہی کچھ جو جنگ کا حصہ بن کر بھی ہو گیا؟
بھارت کا اقدام غیر قانونی ہے۔ اقوام متحدہ کے مسلمہ اصولوں کی خلاف وری ہے۔ لیکن دنیا نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ دنیا تو کیا مسلم دنیا نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔
ہماری بے بسی کا عالم یہ تھا کہ وزیر خارجہ کو کہنا پڑا اگر او آئی سی کشمیر پر اجلاس نہیں بلاتی تو پاکستان او آئی سی کے ان ممالک کا خود اجلاس بلا لے گا جو کشمیر پر ہمارے ساتھ ہیں۔
عالمی برادری اور مسلم دنیا میں ہماری ایسی بے بسی کا عالم پہلے کبھی نہ تھا۔ کیا ہم غور کرنے کو تیار ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟
20 سال ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا اور جنگ ختم ہو رہی ہے تو ایف اے ٹی ایف ہمارا بازو مروڑے کھڑا ہے۔
27 میں سے 26 نکات پر عمل کرنے کے باوجود نام گرے لسٹ میں پڑا ہوا ہے۔ کیا وار آن ٹیرر میں ہماری خدمات کا یہ صلہ ہے؟ کیا اب بھی ہم اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے کو تیار نہیں؟
ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ خارجہ پالیسی ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ سفارت کاری بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ منجھے ہوئے کیریئر ڈپلومیٹس کا کام ہے۔
ملک کے اندر تو طاقت ور اور منظور نظر لوگوں کو مختلف عہدے دے کر اکاموڈیٹ کیا جا سکتا ہے کہ درجنوں محکمے ہیں اور نہ ہوں تو کسی کو نوازنے کے لیے نئے محکمے تشکیل دیے جا سکتے ہیں لیکن سفارت کاری کی دنیا الگ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سفارت کاری اسی کو زیب دیتی ہے جس نے ساری عمر اس شعبے میں صرف کی ہو۔ سفارت کاری کی دنیا اولمپکس کا کھیل نہیں کہ ہار بھی جائیں تو راوی چین ہی لکھتا رہے۔
سفارت کاری سفارت کاروں ہی سے کرائی جانی چاہیے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ جدید نیشن سٹیٹ کا تصور یہی ہے کہ ذمہ داریاں تقسیم کر دی گئی ہیں، جس کی جو ذمہ داری ہے اسے اسی تک محدود رہنا چاہیے۔
برسوں سے نہیں کچھ عشروں سے محسوس ہو رہا ہے کہ خارجہ پالیسی ریاست کی بجائے گاہے کچھ افراد کے مفادات کے تابع ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے عملی طور پر ایسا نہ ہو لیکن تاثر ایسا ہی ہے۔
یہ تاثر درست نہیں۔ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے اور اگر یہ حقیقت ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ افراد کتنے ہی اہم اور ناگزیر کیوں نہ ہوں ملک سے اہم نہیں ہوتے۔
افراد آتے اور چلے جاتے ہیں۔ سب سے مقدم ریاست کا مفاد ہونا چاہیے اور خارجہ پالیسی کا تعین ریاستی مفادات ہی کی روشنی میں ہونا چاہیے۔
مغربی دنیا میں پارلیمانی کمیٹیوں میں فارن پالیسی پر بات ہوتی ہے۔ اس بحث سے آخری تجزیے میں ریاست کا فائدہ ہوتا ہے نقصان نہیں۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت مستحکم نہیں ہو سکی کہ اپنے تزویراتی فیصلوں کا اورخارجہ پالیسی کا سنجیدگی اور معنویت سے جائزہ لیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ بھاری پتھر کب اٹھایا جائے گا؟