پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعینات افغان سفیر کی صاحبزادی کے معاملے میں تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ افغانستان کی جانب سے جو کہا گیا وہ ’حقیقت کے برعکس‘ ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے دیگر حکام کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے بتایا کہ ’افغان سفیر کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل کے مبینہ اغوا کے معاملے میں افغان وفد کے ساتھ تمام تحقیقات بمع ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں لیکن وہ پھر بھی اس کو نہیں مانیں گے اور انہوں نے نہیں مانا۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ اغوا ہے اور وہ اپنی بات پر قائم ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سفیر کی صاحبزادی سلسلہ تک شناخت کے لیے رسائی کی بھی درخواست کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود افغانستان پاکستان کا موقف تسلیم کرنے سے گریزاں ہے اور ہمیں علم ہے کہ وہ تسلیم نہیں کریں گے۔‘
وزیر خارجہ کے مطابق: ’افغان حکومت نے کہا کہ وفد بھیجنا چاہتے ہیں اور سفارت خانے کی سکیورٹی کے انتظامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے وفد کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ کچھ پوشیدہ نہیں رکھا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی، کیونکہ ان کی تسلی ضروری تھی۔ اس سے قبل انہوں نے سلسلہ علی خیل کی انکوائری کو خفیہ رکھنے کی بھی درخواست کی تھی، اسی لیے میڈیا کو فوٹیج جاری نہیں کی گئی۔‘
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ’جب واقعہ رپورٹ ہوا تو تکلیف ہوئی لیکن جب انکوائری کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ جوافغان سفیر کی جانب سے کہا گیا وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ پاکستان نے پوری دیانت داری سے تحقیق کی ہے۔‘
ادھر پیر کو کابل میں وزارت خارجہ نے ایک جاری بیان میں کہا کہ پاکستانی حکام نے اس معاملے پر افغان وفد کے ساتھ کچھ معلومات اور نتائج شیئر کیے۔ ’تاہم پاکستانی حکام کے بیانات نے اس کیس کے مختلف ورژن کا اظہار کیا اور بدقسمتی سے بنیادی سوال جیسے کہ واقعہ کیسے ہوا اور مجرموں کی شناخت وغیرہ کو حل نہیں کیا۔
بیان کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کے پہلے دن طے پانے والے معاہدے کے مطابق وفد نے پاکستانی حکام سے کہا کہ وہ کیس سے متعلق تمام معلومات تکنیکی تحقیقات کے لیے افغان حکومت سے شیئر کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔
’ہسپتال کے ریکارڈ، طبی رپورٹس اور دیگر دستیاب شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ علی خیل خاندان کی خاتون کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ افغان حکومت واقعے کے متاثرین کے ساتھ ہم آہنگی میں اس کیس کے مجرموں کی شناخت اور گرفتاری میں تعاون کے لیے تیار ہے اور رہے گی۔
پیر کو اسلام آباد میں ہونے والی اہم پریس بریفنگ میں وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ داسو میں چینی انجینیئرزکی بس میں دھماکے کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں جو کہ جلد ہی میڈیا کو جاری کی جائیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’افغانستان میں پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ افغان فورسزاور قیادت اپنے اندرونی مسائل کو دیکھے۔ افغان قیادت پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کرے۔ پاکستان، افغانستان کی ناکامیوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ’ہم پہلے ہی افغانستان میں بد امنی کی قیمت ادا کر چکے ہیں، ہم نے 80 ہزار جانیں کھوئی ہیں اور معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔‘
اگر طالبان کابل پر قبضہ کرتے ہیں تو پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اس سوال کا وزیر خارجہ واضح جواب نہ دے سکے اور انہوں نے کہا: ’پاکستان چاہتا تھا کہ افواج کا باقاعدہ حکمت عملی سے انخلا ہوتا تاکہ پیدا ہونے والے خلا کے پڑوسی ملک پر اثرات نہ پڑتے۔‘
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ’11 اگست کو دوحہ میں افغان امن عمل کی میٹنگ ہے، جس میں اگر افغان مذاکرات کامیاب ہوتے تو اس کا سہرا افغان قیادت کے سر ہوگا، اگر افغان مذاکرات ناکام ہوئے تو اس کی ذمہ داری بھی افغان قیادت کے سر ہی جائے گی، لیکن افغان قیادت کی جانب سے ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں جارہی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خارجہ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا: ’آج بدقسمتی سے ایک منتخب نمائندے کا بیان دیکھا، جسے دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہ کس کی زبان بول رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان میں ہمارے مقاصد امریکہ اور عالمی برادری کے مقاصد کے ساتھ مماثل ہیں۔ جو وہ چاہتے ہیں ہم بھی وہی چاہتے ہیں۔ افغانستان پر ہم، امریکہ اور عالمی برادری ایک صفحے پر ہیں۔‘
سی پیک کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’یہ منصوبہ دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ پوری قوم اس منصوبے پر متفق ہے۔ سی پیک کو نشانہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ کوئٹہ سرینا ہوٹل، داسو اور جوہر ٹاؤن حملے اسی کا شاخسانہ ہیں۔‘
بھارت کا سلامتی کونسل کا رکن ہونے کے حوالے سے وزیر خارجہ کہا کہ بھارت کو رکنیت دینے کا فیصلے ان دو سالوں میں نہیں ہوا بلکہ کافی پہلے کر لیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا: ’سلامتی کونسل کی رکنیت کا فیصلہ پہلے کرلیا جاتا ہے۔ سلامتی کونسل کی 26-2025 کی رکنیت کے لیے پاکستان ابھی سے کوششیں شروع کرے گا۔‘