پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہریوں کی بہتر سفری سہولیات کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے شروع ہونے والا کراچی ریڈ لائن بس ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ مسلسل تاخیر کے بعد اب 2027 کے اواخر تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر عالمی اداروں کے مالی اشتراک سے بننے والے ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبے کی منظوری نومبر 2019 میں دی گئی تھی، جب کہ اس پر عملی کام کا آغاز مارچ 2022 میں ہوا۔
ابتدائی طور پر تکمیل کے لیے 30 ماہ کا وقت دے کر جون 2024 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی، جسے بعدازاں تبدیل کر کے جون 2026 کی نئی تاریخ تکمیل کے طور پر دی گئی۔
بدقسمتی سے اس تاریخ پر بھی منصوبے کے مکمل ہونے کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں جبکہ اس پر جاری کام کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید کا کہنا ہے کہ ’کراچی ریڈ لائن منصوبہ ممکنہ طور پر نومبر 2027 میں مکمل ہو پائے گا۔‘
کراچی ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبہ
کراچی ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبہ کراچی شہر کا ایک جدید اور تیز رفتار پبلک ٹرانسپورٹ نظام ہے جو مسافروں کو کم وقت اور خرچ پر سفر کی سہولت فراہم کرے گا۔
اس منصوبے کے تحت کراچی کے ملیر ہالٹ سے بذریعہ یونیورسٹی روڈ نمائش چورنگی تک 27 کلومیٹر طویل ایک مخصوص کوریڈور بنایا جائے گا، جس پر صرف اس منصوبے کی بسیں چلیں گے۔
کوریڈور پر 24 ایئرکنڈیشنڈ بس سٹیشنز قائم کیے جائیں گے، جہاں ٹکٹنگ مشینیں اور دیگر سہولیات دستیاب ہوں گی۔
اس منصوبے کے مکمل ہونے پر اس روٹ پر روزانہ 213 ماحول دوست بسیں چلائی جائیں گی، جن میں تین لاکھ مسافر سفر کرسکیں گے۔
منصوبہ کی تکمیل میں تاخیر
ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے تفصیلی گفگو کرتے ہوئے کہا کہ ریڈ لائن منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی کئی وجوہات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’منصوبے پر کام کے آغاز کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ سندھ حکومت کی معیاد اگست 2023 میں مکمل ہو گئی تھی اور عام انتخابات سے قبل نگران حکومت برسر اقتدار آ گئی۔
’نگران حکومت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا تھا۔ تقریباً نو ماہ تک اس منصوبے پر کام سست رفتاری کا شکار یا مکمل طور پر بند رہا۔
’یہ اس منصوبے کی تاخیر کی بڑی وجہ ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد معاشی بحران کے باعث دیگر اشیا کی طرح تعمیراتی خام مال بشمول سریہ، سیمنٹ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے منصوبے کے مختلف مراحل پر کام کرنے والے کنٹریکٹرز نے پرانی قیمت پر کام جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سندھ حکومت نے قیمتوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، اس میں کچھ وقت لگ گیا، اس لیے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔‘
بقول سعدیہ جاوید اس کے علاوہ کراچی میں زیر زمین گیس، پانی اور دوسری زیر لائنز کو نقصان نہ پہنچانے کی غرض سے بھی کام کی رفتار سست رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ زیر زمین سپلائی لائن کو نقصان پہنچنے کے صورت میں ریڈ لائن کے کام کو بند کر کے پہلے یوٹیلٹی لائن کی مرمت کی جاتی ہے، جس میں یقیناً وقت لگتا اور منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا۔ ‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے کے بعد جب سندھ حکومت نے قیمتوں کا ازسر نو جائزہ لیا تو اس منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر لگائے گئے تخمینے کی رقم میں کتنا اضافہ ہوا؟
سعدیہ جاوید نے کہا: ’مجھے یہ نہیں پتہ کہ کتنا اضافہ ہوا ہے، مگر ازسر نو جائزہ کے بعد ابتدائی تخمینے کی رقم میں اب بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔‘
ابتدائی تخمینے کی ازسر نو جائزے کے بعد اضافی رقم سندھ حکومت ادا کرے گی یا اس کے لیے ایک اور قرضہ لیا جائے گا؟ کے جواب میں سعدیہ جاوید نے کہا: ’یہ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر عالمی اداروں کے اشتراک سے شروع ہوا تو اگر قیمتوں میں اضافہ بھی یہ ادارے ادا کریں گے۔‘
شہریوں کو مشکلات
ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبے کے لیے شہر کی انتہائی اہم شاہراہ یونیورسٹی روڈ پر تقریباً 15 کلومیٹر تک سڑک کو جگہ جگہ تنگ کرنے، تعمیراتی سامان روڈ پر رکھنے اور ٹریفک کو متبادل راستوں پر موڑنے کے باعث روزمرہ کا سفر کرنے والوں کے لیے گھنٹوں کی تاخیر اب روز کا معمول بن چکی ہے۔
ایسی صورت حال میں اس روڈ کے اطراف کے رہائشیوں، طلبہ سمیت شہریوں کی روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ کاروباری افراد کو شکایت ہے کہ ان کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر نیپا چورنگی کے قریب گاڑیوں کے آٹو پارٹس اور آئل فروخت کرنے والے دکاندار ندا خان کے مطابق: ’ریڈ لائن منصوبے کے باعث روڈ کو جگہ جگہ کھود دیا گیا ہے۔ تنگ جگہ کے باعث کوئی خریدار نہیں آتا۔
’اس علاقے سے کئی افراد نے اپنا کاروبار بند کردیا ہے۔‘
کنسٹریکشن ٹھیکیدار محمد اشرف نے دعوی کیا کہ جس طرح ریڈ لائین منصوبے پر کام کیا جارہا ہے، اس طرح یہ منصوبہ 2050 تک بھی مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
گلستان جوہر کے بلاک 15 کی رہائشی خاتون نصرت ندیم نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ دنیا بھر میں کسی بھی بڑے منصوبے کے آغاز سے قبل متبادل راستہ بنایا جاتا ہے تاکہ عوام کو پریشانی نہ ہو۔
’مگر ریڈ لائین پر کام شروع کردیا گیا مگر کوئی متبادل راستہ نہیں بنایا گیا۔ کار اور رکشہ گڑھوں کے باعث الٹ جاتے ہیں۔ عمر رسیدہ افراد اور طلبہ کو آنے جانے میں پریشانی ہوتی ہے۔‘
مہنگا منصوبہ؟
معروف آرکیٹیکٹ اور ٹاؤن پلانر عارف حسن کے مطابق بی آر ٹی ایک انتہائی مہنگا منصوبہ ہے، اس لیے کئی ممالک کے بڑے شہروں میں بی آر ٹی منصوبوں کو بند کردیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عارف حسن نے کہا: ’جتنی رقم سے کسی بھی شہر میں بی آر ٹی منصوبہ بنایا اور بعد میں اس کو مسلسل چلانے پر رقم مختص کی جاتی ہے، اس رقم سے اس پورے شہر میں ایک بس موثر نظام چلایا جا سکتا ہے۔
بقول عارف حسن: ’بس نظام کے تحت عام روڈ پر بسیں چلائی جاتیں ہیں، جن کو مسلسل چلانے کے لیے خطیر رقم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب چاہیں بسوں کی تعداد زیادہ یا کم کر سکتے ہیں۔ روٹ تبدیل کر سکتے ہیں۔
’بی آر ٹی کو عوام کے لیے سستا بنانے کے لیے مسلسل سبسڈی دینی پڑتی ہے۔ مگر بس نظام میں سبسڈی کی ضرورت نہیں ہو گی۔
’اس کے علاوہ خطیر رقم سے بی آر ٹی کا کوریڈور کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، 10 سے 15 سال بعد اس مرمت کی ضرورت ہو گی۔‘
بعض لوگ از راہ مزاح کہتے ہیں کہ اس سروس کا ریڈ لائن نام ہی نے اسے سرخ فیتے میں تبدیل کر دیا ہے جسے مکمل کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔