موسم گرما ابھی ختم نہیں ہوا کہ ہم نے کینیڈا میں اتنی گرمی کی لہر دیکھی ہے، شمالی امریکہ میں تباہ کن آگ اور جرمنی اور چین میں شدید سیلاب دیکھے ہیں۔
ایسا اچانک نہیں ہوا بلکہ سائنسدان تو گذشتہ پچاس سالوں سے تنبیہہ کر رہے ہیں کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں شدید نوعیت کے واقعات رونما ہوں گے لیکن پھر بھی لوگ اس امر پر حیران و پریشان ہیں کہ ان واقعات میں اتنی زیادہ شدت ہے۔
نیچر کلائمیٹ چینج نامی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تازہ ترین موسمی شدت نے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور موسمی حدت میں اضافے کے باعث شدید موسم دیکھنے کو ملیں گے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ریکارڈ توڑ شدید موسم موسمی حدت کے بغیر ہونا ناممکن ہے اور ایسے واقعات کے ہونے کا زیادہ تعلق حدت کے ریٹ سے ہے بہ نسبت حدت کی لیول کے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2021 اور 2050 کے درمیان ایک ہفتے کی شدید گرمی ہونے کے امکانات دو سے سات بار زیادہ ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے پینل برائے موسمی تبدیلی نے حال ہی میں دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمی حدت خطرناک حد تک قابو سے باہر ہونے کے قریب ہے اور اس کے ذمہ دار انسان خود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی میں اضافہ ہی ہو گا کمی واقع نہیں ہو گی یعنی کہ شدید گرمی کی لہر، سیلاب اور دیگر شدید موسمی واقعات جو اس وقت مختلف ممالک میں واقع ہو رہے ہیں ان میں مزید شدت آئے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس رپورٹ کو ’انسانیت کے لیے کوڈ ریڈ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطرے کی گھنٹی صاف سنائی دے رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر موسمی تبدیلی اور حرارت کو قابو کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو عالمی حدت میں اگہ بیس برسوں میں ایک اعشاریہ پانچ سیلسئس کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ عالمی حدت میں ایک اعشاریہ پانچ ڈگری اضافہ انسان سہہ سکتے ہیں بغیر کسی معاشی اور سماجی مشکلات کے۔ تاہم محض ایک اعشاریہ ایک ڈگری کے اضافے سے موسم میں شدت آئی ہے اور ریکارڈ توڑ گرمی کی لہر سے پیسیفک شمال مغرب میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، خشک سالی اور حدت کے باعث مغربی امریکہ میں آگ بھڑک اٹھی ہے۔ اس سے زیادہ گرمی سے کچھ علاقوں میں لوگ گھروں سے باہر نکلے تو مر سکتے ہیں۔
دنیا امریکہ اور پیسیفک میں گرمی کی لہروں کی خبروں پر توجہ مبذول کیے ہوئے تھا تو دوسری جانب پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں برداشت سے زیادہ گرمی پڑی اور درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ گیا۔ ماہرین نے تو یہ بھی کہا کہ اگر اتنی گرمی کچھ گھنٹے مزید برقار رہی تو لوگوں کے اعضا جواب دے سکتے ہیں اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سائنسدانوں کے مطابق جیکب آباد میں اتنی زیادہ گرمی ان کی توقعات سے کہیں پہلے ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ پاکستان کے علاقے موسمی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوں گے اور مستقبل قریب میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہو گا۔
پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلی سے متاثر ہیں۔ پورتو ریکو، میانمار، ہیٹی، فلپائن کے بعد پاکستان کا نام ہے۔ ایکشن ایڈ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے باوجود سمندری سطح میں اضافے، پانی کی قلت، زراعتی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کے باعث خدشہ ہے کہ 2030 تک پاکستان میں چھ لاکھ افراد بے گھر ہو جائیں گے اور نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ تاہم اگر موسمت تبدیلی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دگنی یعنی بارہ لاکھ ہو سکتی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ حکومت موسمی تبدیلی اور اس کے نتائج کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے اور ایسے اقدامات کرے جس سے ماحول اور انسان دونوں ہی کو محفوظ رکھا جائے۔ تازہ رپورٹوں سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی سے روزگار اور صحت دونوں ہی پر اثر پڑے گا۔ اس وقت بھی 39 فیصد آبادی کثیر جہتی غربت میں مبتلا ہے اور موسمی تبدیلے باعث روزگار جانے سے ان کی زندگی اور صحت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔