ہمارے ہاں قومی موسم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی امید، کبھی ماتم۔ آج کل شکایات کا موسم ہے۔
شکایت دنیا سے ہے کہ وہ ہماری بات نہیں سنتی۔ ہمیں ہمارے بہترین ریکارڈ اور عظیم قربانیوں کا صلہ نہیں دیتی، الٹا ہر وقت ہمیں الزامات کی سولی پر چڑھائے رکھتی ہے۔
ظاہرً ہم نے دنیا کی اس بدصفتی کو مسترد کر دیا ہے۔ جبھی تو پچھلے کئی ہفتوں سے ہم درجنوں بیانات دیکھ چکے ہیں جس میں افغانستان کے معاملے پر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس موقف کو دہرایا گیا ہے کہ پاکستان اس سے زیادہ امن کے لیے کوشش نہیں کر سکتا۔
ہم نے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس نکتے کو اجاگر کیا ہے۔ شہباز گل، حماد اظہر اور شیخ رشید سے لے کر آرمی چیف قمر باجوہ اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان سب نے ایک ہی بات کہی ہے۔ یعنی ہمیں ’دوش نہ دو، ہوش کرو ورنہ اپنا راستہ لو‘۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کو بیرونی دنیا سے کوئی خاص انصاف نہیں ملا۔ بس چین ہی ہے جو ہر وقت ہماری مدد کرتا ہے مگر اس میں بھی چین کے اپنے مفادات ہیں۔
اس کو معلوم ہے کہ ہمارا جغرافیہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات اس کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں کتنی مرکزیت رکھتے ہیں۔
بہرحال چین ایک دوست ملک ہے۔ مغربی دنیا کا نہ پوچھیں تو بہتر ہے۔ امریکہ سے یورپ تک ہر کوئی لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ ایک لمحہ سکون کا نصیب نہیں ہوتا۔ جب سے افغانستان کا لاوا دوبارہ سے ابلنے لگا ہے تب سے ہم پر حملے مزید بڑھ گئے ہیں۔
ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ افغانستان کی موجودہ حالت کی ذمہ داری ان ممالک پر ہوتی ہے جنہوں نے کھربوں ڈالر اور دو دہائیاں ضائع کیں اور ایک ایسی فوج بھی نہ بنا پائے جو تین مہینے طالبان کے سامنے کھڑی ہو سکے، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب یہاں سے بھاگ گئے۔
اب لاوا ہر طرف پھیل رہا ہے اور یہ ممالک پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ دنیا بھر میں ہمیں ہر وقت اتنی تنقید کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟
کسی زمانے میں قوم و ملک کی ساکھ کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات ملک میں موجود قیادت کے حوالے سے دیے جاتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ جب نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے نمائںدگان پاکستان میں موجود ہوں گے تو کون ہمیں سنجیدگی سے لے گا۔
اور ایک مرتبہ جب نواز شریف نے براک اوباما کے ساتھ میٹنگ کے دوران پالیسی ہدایات کے تحت لکھے گئے نکات کو صفحے سے پڑھ کر بول دیا تھا تو طوفان مچ گیا۔ یہ کہا گیا کہ پاکستان کی بے عزتی ہوئی ہے۔ کاغذ کا استعمال کر کے نواز شریف نے ملکی وقار کو بدترین ٹھیس پہنچائی۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ دنیا کے بہترین مقرر قائدین اہم معاملات پر نوٹس سے ہی رجوع کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے متن کو اپنے سامنے مشین کے ذریعے لا کر پڑھتے ہیں۔ مگر ہمارا معیار تو سب سے انوکھا ہے۔
لہٰذا ہم نے یہ سوچا کہ فرفر انگریزی بولنے والا قائد تلاش کرنا چاہیے اور اس تمام نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے جس کی نحوست سے پاکستان کے نام کو بٹہ لگتا ہے اور پاکستان کے جھںڈے اور پاسپورٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
2018 میں انقلاب عمران کے بعد ہر طرف یہ توقعات پھیل گئی تھیں کہ اب کمزور خارجہ و دفاعی پالیسی کا بیانیہ مضبوط ہو جائے گا۔ جب نیک اور خدادا صلاحیتوں سے مالامال قیادت گرجے گی تو دنیا کی ہمدردیاں ہم پر برسیں گی۔
دوستوں میں اضافہ ہو گا۔ دشمنیوں میں کمی ہو گی اور اسلام آباد سے جب بھی کوئی ایک بیان جائے گا دنیا تمام کام چھوڑ کر اس کے سننے، پڑھنے اور سمجھنے میں لگ جائے گی۔
مگر نجانے کیوں ہم ابھی تک اس کرشمے سے محروم ہیں۔ اپنی کمزوری کو طاقت میں بدلنا تو دور کی بات اپنی کامیابی کو ظاہر کرنے میں بھی پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔
ہماری تمام سفارتی ترجیحات محدود ہو کر ایک شکایت سیل میں تبدیل ہو گئی ہیں جہاں سے ہم ہر وقت جلی کٹی بڑبڑاہٹ ہی سنتے ہیں۔ اور پھر واشنگٹن کی طرف سے موجودہ ’ٹھنڈ پروگرام‘ تو سمجھ سے بالا ہے۔
یہ تو وہ جگہ ہے جہاں پر وزیر اعظم عمران پاکستان کے جھنڈے گاڑ آئے تھے اور واپس آ کر قوم کو بتایا تھا کہ وہ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جیسے ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ جیت آئے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ سے رابطے بھی بے شمار ہیں۔ ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی نمائندہ کچھ کہنے اور سننے کے لیے پاکستان میں موجود ہوتا ہے۔ یا ہمارے نمائندگان کو وہاں پر لے جانے کے لیے جہاز ہر وقت تیار ملتا ہے۔
انگریزی بولنے کا بھی مسئلہ نہیں۔ معید یوسف، شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم اس زبان پر عبور رکھتے ہیں اور کسی بھی موقعے پر اس کو استعمال کر کے اپنا نقطہ نظر بیان کر دیتے ہیں۔ مگر ہماری ساکھ ہے کہ ٹھیک ہونے میں نہیں آتی۔
شاید اسی وجہ سے حکومت وقت نے پالیسی سازی فوجی سربراہ کے حوالے کر دی ہے اور خود کو درخت لگانے، کراچی کو صاف کرنے یا اپوزیشن کی حب الوطنی کے بارے میں سوال اٹھانے تک محدود کر دیا ہے۔
بات سمجھ میں آتی ہے کہ واشنگٹن کی ضدی بھینس کے سامنے سریلی بانسریوں کو بجا کر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اور اہم کام کر لیے جائیں۔
جب دنیا میں دانش مند لوگوں کی حکمرانی ہو گی تب ان کو خود ہی ہماری گہری سوچ کی اہمیت سے آگاہی ہو جائے گی۔
تب تک فوج کا سربراہ معاملہ سنبھالتا رہے گا۔ ویسے بھی مشکل باتیں سمجھانا آسان کام نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دنیا میں پاکستان کے مقدمے کو لڑنے میں جیسی مشکلات درپیش ہیں ویسی مشکلات کا عثمان بزدار کی حکومت کو بھی سامنا ہے۔
جبھی تو ہر تین مہینے کے بعد ترجمانوں کو تاش کے پتوں کی طرح پھینٹ کر کامیابی کا فارمولہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بالکل پرانے زمانے کے ہاکی میچ جیسی کمنٹری کی جا سکتی ہے۔ ’گیند چوہان کے پاس، چوہان سے اعوان کے پاس، اعوان سے گل کی طرف، گل سے صمصام اور آدھے درجن دوسرے کھلاڑیوں سے ہوتی ہوئی اعوان، گل اور صمصام کو روندتی ہوئی دوبارہ چوہان کی طرف۔‘
جب پنجاب کے لوگوں کو اہمیت بزدار سمجھانے کے لیے یہ کچھ کرنا پڑ رہا ہے تو عمران حکومت کے تحت چلنے والے پاکستان کو دنیا میں متعارف و معتبر کروانا کتنا کٹھن ہو گا؟
لہذا پریشان نہ ہوں وہ وقت آئے گا جب واشنگٹن بھی کہے گا ’بلے بلے، پاکستان اُتے تے اسی سارے تھلے‘۔ تب تک انتظار فرمائیے اور شکایات سننے پر گزارہ کیجیے۔