ایک ایسے وقت میں جبکہ افغان طالبان نے ملک کے آٹھویں صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرلیا ہے، افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی حکومت جو افغانستان میں طاقت کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے، اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود زلمے خلیل زاد نے طالبان کو یہ بتایا ہے کہ میدان جنگ میں فتح حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دوسری جانب زلمے خلیل زاد اور دیگر امید کرتے ہیں کہ طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات پر واپس آنے پر آمادہ کرلیا جائے گا۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہونے جارہا ہے اور طالبان نے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ملک کے 34 میں سے آٹھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے ، جن میں صوبہ قندوز کا دارالحکومت قندوز بھی شامل ہے، جو ملک کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ اتوار کو طالبان نے شہر کے مرکزی چوک پر اپنا پرچم لگایا، لیکن ہوائی اڈے اور شہر کے مضافات میں ایک فوجی اڈے پر ابھی بھی حکومتی فورسز کا کنٹرول ہے۔
طالبان اب دیگر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکومتی فورسز سے لڑ رہے ہیں اور انہوں نے صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے۔
ایک رکن پارلیمنٹ اور ایک فوجی افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے منگل کو صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری پر قبضہ کر لیا ہے۔ قانون ساز ممبر احمد زئی نے کہا: ’تقریباً دو گھنٹے کی لڑائی کے بعد سکیورٹی فورسز پر قابو پالیا گیا اور وہ پیچھے ہٹ گئیں۔‘
منگل کو ہی دن کے اختتام پر طالبان جنگجو صوبہ فراہ میں بھی داخل ہوئے اور انہیں صوبائی گورنر کے دفتر کے سامنے دیکھا گیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ کی کہ انہوں نے فراہ شہر پر قبضہ کر لیا ہے، لیکن اس علاقے سے تعلق رکھنے والے قانون دان عبدالناصر فراہی، جو کابل میں ہیں، نے کہا کہ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ اور ایک فوجی اڈے کا کنٹرول اب بھی حکومت کے پاس برقرار ہے۔
اس طرح منگل کو طالبان دو جبکہ جمعے سے لے کر اب تک آٹھ صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔
20 سالہ مغربی فوجی مشن اور افغان فورسز کی تربیت پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بہت سے لوگ اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ افغان افواج کیوں پست ہوچکی ہیں۔ یہ لڑائی بڑی حد تک ایلیٹ فورسز اور افغان فضائیہ کے چھوٹے گروہوں کے پاس آچکی ہے۔
طالبان کی کامیابی نے طویل عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت میں اضافہ کیا ہے، جو کہ شورش ختم کرکے افغانستان کو ایک جامع عبوری انتظامیہ کی طرف لے جا سکتے ہیں، تاہم طالبان نے اب تک مذاکرات کی میز پر واپس آنے سے انکار کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق قطر میں زلمے خلیل زاد کے مشن کا مقصد 'افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر مشترکہ بین الاقوامی ردعمل وضع کرنے میں مدد کرنا ہے۔'
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ وہ 'طالبان پر دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنی فوجی کارروائی بند کریں اور ایک سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات کریں جو افغانستان میں استحکام اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔'
دوسری جانب طالبان کے فوجی سربراہ نے منگل کے روز اپنے جنگجوؤں کے لیے ایک آڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہیں حکم دیا گیا کہ وہ افغان فورسز اور سرکاری افسران کو ان علاقوں میں نقصان نہ پہنچائیں جو وہ فتح کرتے ہیں۔ دوحہ میں طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے یہ ریکارڈنگ ٹوئٹر پر شیئر کی۔
تقریباً پانچ منٹ کی اس آڈیو میں، طالبان کے مرحوم رہنما ملا محمد عمر کے بیٹے محمد یعقوب نے باغیوں سے کہا کہ وہ فرار ہونے والے حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کے چھوڑے گئے گھروں سے باہر رہیں، بازاروں کو کھلا چھوڑ دیں اور بینکوں سمیت کاروبار کی جگہوں کی حفاظت کریں۔
یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ آیا طالبان جنگجو ملا یعقوب کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ طالبان کی پیش قدمی کے نتیجے میں فرار ہونے والے کچھ شہریوں نےبتایا ہے کہ طالبان نے خواتین پر جابرانہ پابندیاں عائد کیں اور سکولوں کو جلا دیا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کے دفتر نے کہا ہے کہ انہیں سزائے موت، فوجی استعمال اور طالبان کے قبضے والے علاقوں میں گھروں، سکولوں اور کلینکوں کی تباہی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
طالبان: سرحد کھولنے پر مذاکرات ہوئے، پاکستان کا انکار
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی چمن کے مقام پر سرحد کو افغان طالبان کی جانب سے بند کیا گیا ہے اور پاکستان کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔
چمن میں موجود صحافی دلبر خان کے مطابق ڈپٹی کمشنر چمن جمعہ داد خان مندوخیل نے منگل کو ڈی سی آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان نے پہلے بھی سرحد کو کھولے رکھا تھا اور ابھی بھی پاکستان کی جانب سے سرحد کھلی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے طالبان نے چمن کے مقام پر سپین بولدک سرحد بند کر دی تھی جس سے دونوں اطراف ہزاروں افراد پھنس کر رہ گئے تھے۔ طالبان نے پشتو زبان میں جاری کردہ ایک اعلامیے میں مطالبہ کیا تھا کہ سرحد پر آنے جانے والوں کو صرف مہاجر افغان کارڈ یعنی تذکرہ پر سرحد پار کرنے کی اجازت دی جائے اور سرحد کھولے جانے کے دورانیے میں اضافہ کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب بظاہر پاکستان نے یہ دونوں شرطیں مان لی ہیں اور صرف دستاویزات کے حامل افراد کو سرحد پار کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ کرونا ایس او پیز کی وجہ سے پاکستان نے سرحد کھلنے کا دورانیہ صبح آٹھ بجے سے 11 بجے تک کیا تھا جب کہ اب اسے بھی بڑھا کر صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک کر دیا گیا ہے۔
پیدل آمدورفت اور ہر قسم کی تجارت کے لیے یہی وقت کارآمد ہوگا اور تمام افراد کو کرونا (کورونا) ایس او پیز کے تحت تجارت اور پیدل آمدورفت کی اجازت ہوگی۔
اس کے علاوہ چمن سرحد پر پہلے کی طرح افغان تذکرہ (یعنی افغانی شناخت کارڈر ہولڈرز) اور پاکستانی قومی شناخت کارڈ پر دوطرفہ آمدورفت کا ذریعہ ہوگی۔
ڈپٹی کمشنر جمعہ داد مندوخیل نے سرحد کھولنے سے متعلق چمن بارڈر کھولنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت پاکستان کا فیصلہ ہے، البتہ انہوں نے واضح کیا کہ افغان طالبان سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے۔
جبکہ افغان طالبان کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں۔
طالبان کے اعلامیے کے مطابق چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد پر پاکستانی حکام کے ساتھ باب دوستی کی بندش سے متعلق مذاکرات ہوئے ہیں اور اتفاق ہوا ہے کہ سپین بولدک سرحدی گزرگاہ کل یعنی بدھ سے ہر قسم کی آمدورفت کے لیے کھول دی جائے گی۔ طالبان کے مطابق پاکستانی حکام کے ساتھ پانچ میں سے تین شرائط پراتفاق ہوگیا ہے۔
باب دوستی گیٹ پیدل آمدورفت کے لیے روزانہ آٹھ گھنٹے کھلا رہے گا اور سرحد پر پاکستانی شناختی کارڈر کے علاوہ افغان دستاویز تزکرہ یا مہاجر کارڈ بھی قابل قبول ہوگا۔
ڈپٹی کمشنر کی پریس کانفرنس سے قبل طالبان نے ایک اور اعلامیہ جاری کیا، جس میں سرحد کھولنے کے لیے شرائط کی تفصیل بیان کی گئیں۔ ان میں درج ذیل شرطیں شامل ہیں:
- پرانی طرز پر افغانی تذکرہ پر پیدل آمدورفت کی بحالی۔
- پاکستان کی جانب سے جاری شدہ مہاجر کارڈز پر پیدل آمدورفت کی بحالی۔
- باب دوستی کھلنے کا دورانیہ تین گھنٹے سے بڑھا کر نو گھنٹے کرنا۔
- غریب لوگوں کو پرانی طرز پر کام کرنے دینا۔
- سرحد پر کاروبار میں آسانی پیدا کرنا۔
- مسافروں کی تلاشی کے دوران اخلاق سے پیش آنا۔
اعلامیے کے مطابق طالبان عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان چھ شرائط پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
طالبان سے لڑائی میں افغان فوج کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے: امریکہ
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور دیہی علاقوں کے بعد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے باوجود امریکہ نے ان کے خلاف فضائی حملے بڑھانے کے کوئی آثار ظاہر نہیں کیے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پینٹاگون کے ایک ترجمان نے پیر کو زور دیا کہ امریکی اب اس معاملے کو ایسے دیکھتے ہیں کہ یہ افغانستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے جیتنے یا ہارنے کی لڑائی ہے۔
ترجمان جان کربی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’جب ہم مستقبل میں پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو قیادت پر ہی نظر ڈالیں گے کہ قیادت کی گئی یا نہیں۔ اپنے ملک کا دفاع اب ان کی ذمہ داری ہے، ان کی جدوجہد ہے۔‘
روئٹرز کے مطابق انہوں نے کہا: ’یہ ان کی سکیورٹی فورسز ہیں اور ان (افغان حکومت) کے صوبائی دارالحکومتیں اور قوم ہیں۔ ان کا دفاع کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر افغان سکیورٹی فورسز کامیاب نہیں ہو پا رہیں تو امریکہ کیا کر سکتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا: ’کچھ زیادہ نہیں۔‘
جان کربی نے کہا کہ ان کے ملک کو افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال پر گہری تشویش ہے اور یہ کہ سکیورٹی کی صورت حال بہتر نہیں ہو رہی۔
ان کے بقول افغان سکیورٹی فورسز طالبان سے بہتر لیس ہیں اور وہ باغیوں کے خلاف کارروائی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ’ان کے پاس تین لاکھ فوجی اور پولیس ہیں، ان کے پاس جدید فضائیہ ہے جس کی ہم مدد بھی کرتے ہیں۔‘
جان کربی نے یہ بھی کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز کو سیاسی اور عسکری طور پر قیادت دکھانے کی ضرورت ہے۔
پریس سیکریٹری کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر مبینہ طور پر ’دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں‘ کی موجودگی افغانستان میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے اور امریکہ ایسے ٹھکانوں کی ’بندش‘ کے لیے پاکستانی قیادت سے بات چیت کر رہا ہے۔
جان ایف کربی نے کہا: ’ہم سب کو ان محفوظ ٹھکانوں کو بند کرنے کی اہمیت کا مشترکہ احساس ہے اور انہیں طالبان یا دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس کی جانب سے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بات بھی ہمارے ذہن میں ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام بھی اسی خطے سے شروع ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا شکار ہوتے ہیں۔‘
امریکی بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب گذشتہ ہفتے سے اب تک طالبان چھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق پیر کو طالبان نے دعویٰ کیا کہ زرنج، سرپل، قندوز، شبرغان اور تلقان کے بعد اب انہوں نے صوبے سمگان کے شہر ایبک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
امریکہ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ فوجی کمانڈروں کے واضح تجزیے کے مطابق افغانستان میں حالات بگڑ رہے ہیں۔
ان کے بقول افغان سکیورٹی فورسز کی سپیشل آپریشنز ٹیمیں اہم مراکز جیسے قندھار اور لشکرگاہ میں طالبان کو قابض ہونے سے روک پائے ہیں مگر وہ شہر جہاں کمانڈوز کو نہیں پھیجا گیا، وہاں طالبان فوج کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
امریکہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر ہربرٹ میک ماسٹر نے بھی افغانستان کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ وہ افغانستان میں کسی تباہی کو روکنے کا موقع گنوا رہے ہیں۔
Time is running out to prevent disaster in Afghanistan. The Taliban’s brutal offensive and the humanitarian crisis reveals what the sustained coalition effort there was preventing.
— H.R. McMaster (@LTGHRMcMaster) August 9, 2021
میک ماسٹر نے طالبان کے حملوں کو ’وحشیانہ‘ قرار دیا اور کہا کہ طالبان کی پیش قدمی اور انسانی بحران اب یہ دکھا رہا ہے کہ اتحادیوں کی مسلسل کوششوں ملک کو کیسے بچا رہا تھا۔
طالبان اس سے قبل مغربی اور افغان حکام کی جانب سے ایسے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔