ہالینڈ میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ حرکت قلب بند ہوجانے کے بعد مردوں کے مقابلے میں خواتین کے زندہ بچ جانے یا صحت یاب ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ لوگ یہ بات کم ہی جانتے ہیں کہ خواتین بھی حرکت قلب کی بندش کا اتنا ہی شکار ہوتی ہیں جتنا کہ مرد۔ ہوسکتا ہے کہ خواتین کو دل کا دورہ پڑنے کی علامات کے بارے میں علم ہی نہ ہو اور نہ جانتی ہوں کہ انہیں کب فوری علاج کی ضرورت ہے۔
’ یورپئن ہارٹ جرنل‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق حرکت قلب بند ہو جانے کے بعد خواتین اور مردوں کو ایک جیسا علاج میسر نہیں آتا۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسی خواتین جن کی حرکت قلب ہسپتال سے باہر بند ہوئی ان کے لیے اس بات کا امکان کم تھا کہ ان کے پاس سے گزرنے والے افراد بحالی میں ان کی کوئی مدد کرتے۔ مردوں کے مقابلے میں ایسی خواتین کی موت واقع ہوجانے کے امکانات زیادہ ہیں۔
علاج میں اس فرق کی وجہ جزوی طور پر یہ حقیقت ہے کہ لوگ جانتے ہی نہیں تھے کہ زمین پر گرنے والی خواتین کے دل کی حرکت بند ہوگئی تھی۔ غلط فہمی کی وجہ سے امدادی سروس طلب کرنے میں تاخیر ہوئی جس کا نتیجہ علاج میں بھی تاخیر کی صورت میں سامنے آیا۔
دل کا دورہ اس وقت پڑتا ہے جب دھڑکن میں بے قاعدگی آتی ہے جس کے بعد حرکت قلب مکمل طور بند ہوجاتی ہے۔ حرکت قلب کی بندش اور دل کے دورے میں فرق ہے۔
ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر ہنوتان کہتے ہیں: ’تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ خواتین کے معاملے میں نتیجے کے بد تر ہونے کا بڑا سبب یہ حقیقت ہے کہ حرکت قلب بند ہونے کی صورت میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو برقی جھٹکے لگا کر ان کے دل کی ابتدائی حرکت بحال کرنے کا امکان آدھا ہے۔‘
ڈاکٹر ہنوتان اور ان کی ٹیم نے ہالینڈ کے ایک صوبے میں 2006 سے 2012 کے دوران ہسپتالوں کی ایمرجنسی سروس کی جانب سے حرکت قلب بند ہونے کے بعد بحالی کی تمام کوششوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے۔ محققین کو معلوم ہوا ہے کہ چھ برس میں 5717 ایسے افراد کو طبی امداد فراہم کی گئی جن کی حرکت قلب ہسپتال سے باہر بند ہوگئی تھی۔ ان افراد میں 28 فیصد خواتین تھیں۔
محققین کو پتہ چلا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے اس بات کا امکان کم تھا کہ حرکت قلب بند ہونے کی صورت میں پاس کھڑا کوئی شخص جان بچانے میں ان کی مدد کرتا۔ حرکت قلب بند ہونے کی صورت میں پاس کھڑے شخص کی جانب سے مردوں کی مدد کا امکان 73 فیصد جبکہ خواتین کے لیے 68 فیصد ہے۔
یہ اعدادوشمار اس وقت کے ہیں جب حرکت قلب بند ہونے کی وجہ خواتین زمین پر گرگئیں لیکن ان کے قریب موجود کوئی شخص انہیں فوری امداد فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
تحقیق سے مزید پتہ چلا ہے کہ حرکت قلب بند ہونے کے وقت سے لے کر ہسپتال میں داخل ہونے تک خواتین کے زندہ بچ جانے کے امکانات کم ہیں۔ مردوں میں یہ امکان 37 جبکہ خواتین کے لیے 34 فیصد ہیں۔
حرکت قلب بند ہونے کے بعد ہسپتال میں داخلے اور روانگی تک خواتین کے بچ جانے کا امکان کم ہے۔ مردوں کے لیے یہ امکان 55 جبکہ خواتین 37 فیصد ہے۔
مجموعی طور پر حرکت قلب بند ہونے کی صورت میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے صحت یاب ہو کر ہسپتال سے لوٹنے کے امکانات نصف ہیں۔ محققین کے خیال میں اس کی بڑی وجہ خواتین میں برقی جھٹکوں کے ذریعے حرکت قلب کی ابتدائی بحالی کی کم شرح ہے۔ یہ شرح مردوں 52 جبکہ خواتین میں 33 فیصد ہے۔ محققین نے اس فرق کی بہت سی وجوہات کا پتہ چلایا ہے۔
کسی بھی شخص کو الیکٹروکارڈیوگرام مشین کے ذریعے دل کے مقام پر اس وقت بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں جب اس کے دل کی دھڑکن بند ہوجائے۔ بجلی کے جھٹکوں سے دل کی دھڑکن کی بحالی کا امکان ہوتا ہے۔ بصورت دیگر چند منٹ میں موت واقع ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر ہنوتان کے مطابق حرکت قلب بند ہونے کی صورت میں مردوں کے مقابلے میں خواتین میں الیکٹروکارڈیوگرام مشین کے ذریعے دل کی دھڑکن کی ابتدائی بحالی کا امکان بھی نصف ہے۔
اس حوالے سے محققین نے پہلے سے لاحق بیماریوں اور ڈاکٹروں کی جانب سے مریض کی بحالی کے طریقے سے متعلق عوامل پر بھی غور کیا ہے۔ ان عوامل کی ایک مثال یہ ہے کہ حرکت قلب بند ہونے پر ایمبولینس نے مریض کو ہسپتال پہنچانے میں کتنا وقت لیا؟
ڈاکٹر ہنوتان کا کہنا ہے کہ صرف حرکت قلب کی بندش سے متاثرہ افراد کو دیکھا جائے تو مجموعی طور پر برقی جھٹکوں کے ذریعے حرکت قلب کی ابتدائی بحالی اور صحت یابی کی شرح مردوں اور خواتین میں ایک جیسی ہے۔
محققین کی رائے میں خواتین میں حرکت قلب کی بندش کے حوالے سے عوامی سطح پر آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ حرکت قلب بند ہونے اور دل کے دورے میں فرق ہے۔