مسلم اکیڈمی ملتان ایک قدیم تعلیمی ادارہ تھا جو گذشتہ کئی دہائیوں سے پرائیویٹ سیکٹر میں اپنی عملی خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ یہ ادارہ اگرچہ پرائیویٹ نوعیت کا تھا لیکن اس کے منتظمین نے اسے کاروبار کی غرض سے نہیں بنایا تھا۔ ان کا طریقہ تعلیم اور سالانہ بہترین نتائج، اس بات کا عملی مظہر تھے کہ یہ ادارہ کسی اعلیٰ مقصد کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہے۔
مسلم اکیڈمی کے مالک پروفیسر ڈاکٹر الماس ایک منکسرالمزاج اور علم دوست شخصیت تھے۔ انہوں نے اردو ادب اور اسلامیات میں ڈبل ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ الماس صاحب طلبہ و طالبات کی مخلوط تعلیم کے حق میں نہیں تھے، اس لیے انہوں نے مسلم اکیڈمی میں طلبہ اور طالبات کے لیے الگ الگ کیمپس بنائے ہوئے تھے۔ دور دراز سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل کا بندوبست بھی موجود تھا، جس میں اقامتی بچوں کو بہترین تربیت اور متوازن خوراک فراہم کی جاتی۔
اقامتی طلبہ کی جسمانی نشوونما کے لیے بیڈمنٹن، فٹ بال اور والی بال میں سے کسی ایک کھیل کا انتخاب ضروری تھا۔ ہاسٹل کے ساتھ ایک خالی پلاٹ تھا جہاں فٹ بال کی پریکٹس کروائی جاتی جبکہ ہاسٹل کے اندر چھوٹے سے گارڈن میں والی بال اور بیڈمنٹن کے نیٹ لگوائے گئے تھے جہاں باقاعدگی سے میچوں کا انعقاد ہوتا۔
یوں یہ ادارہ طلبہ کی مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت اور کردار سازی پر بھی خصوصی توجہ دیتا۔
پروفیسر ڈاکٹر الماس مسلم اکیڈمی کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ، اکیڈمی کے منتظم اعلیٰ اور پرنسپل بھی تھے۔
2005 کے آخر میں محبوب عباسی نامی ایک شخص ان کے دفتر آیا۔ بھرا ہوا جسم، 50 سال کے قریب عمر اور شکل و صورت کے اعتبار سے معتبر شخص دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے الماس صاحب کو سب سے پہلے مبارک باد دی کہ وہ جس جذبے کے ساتھ، بغیر کسی دنیاوی لالچ کے علم کی دولت بانٹنے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں وہ یقیناً قابلِ تحسین ہے۔
پروفیسر الماس صاحب نے پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید یہ شخص اپنے کسی بچے یا رشتہ دار کو اکیڈمی میں داخل کروانا چاہتا ہے، چنانچہ انہوں نے اسی حوالے سے انہیں مسلم اکیڈمی کے قیام، علم دوست ماحول اور سالانہ نتائج کی تفصیلات بتانا شروع کر دیں۔ الماس صاحب نے دیوار پر آویزاں ’آنرز بورڈ‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال ہماری اکیڈمی کے دو تین بچے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں پوزیشن ہولڈرز ضرور ہوتے ہیں۔ پچھلے چھ سال کے دوران ملتان بورڈ میں ہماری اکیڈمی کے پوزیشن ہولڈر بچوں کے نام اس بورڈ پر دیکھ سکتے ہیں۔
اچانک محبوب عباسی نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔ الماس صاحب، ایک نرم دل انسان ہونے کے ناطے اس شخص کے پاس آئے، اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر ڈھارس بندھاتے ہوئے کہنے لگے کہ مسلم اکیڈمی میں ایسے طلبہ بھی زیر تعلیم ہیں جو غربت کے باعث تعلیم کے اخراجات کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے، اگر وہ اس وجہ سے پریشان ہیں تو انہیں بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
محبوب عباسی نے اپنی عینک اتاری اور اپنی قمیص کے ساتھ اس کا شیشہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگا: ’سر، میری داستان بہت دردناک ہے لیکن میں اپنا دکھ درد ہر شخص کے سامنے بیان نہیں کر سکتا، آپ کیونکہ اہل درد انسان ہیں۔ اس لیے میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں آپ کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لوں۔‘
الماس صاحب نے پانی کا گلاس محبوب عباسی کی طرف بڑھایا اور اسے تسلی دی کہ وہ اپنی بات بلاجھجک کھل کر بتائے۔ محبوب عباسی نے ایک طویل ٹھنڈی آہ بھری اور بولنا شروع کیا۔
’میرا نام محبوب عباسی ہے، میں مظفرآباد، کشمیر کا رہنے والا ہوں۔ میری عباسی کلاتھ ہاؤس کے نام سے مظفرآباد شہر میں کپڑے کی بہت بڑی دکان تھی، اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ بیٹی بچوں میں سب سے بڑی تھی اور چین میں ایم بی بی ایس کر رہی تھی۔ میرے دونوں بیٹے 14 سالہ احسن اور 11 سالہ محسن، انگریزی سکول میں بالترتیب نویں اور ساتویں کلاس کے طالب علم تھے۔ بڑا بیٹا سی ایس ایس کر کے پولیس آفیسر بننا چاہتا تھا جبکہ چھوٹے بیٹے کو فوج میں افسر بننے کا شوق تھا۔‘
’ستمبر 2005 تک زندگی عیش و آرام سے گزر رہی تھی۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے، ہر طرح کی تکلیف، آزمائش اور پریشانی سے کوسوں دور رکھا ہوا تھا۔ مجھے ہر دو تین ماہ کے بعد گارمنٹ فیکٹریوں سے حساب کتاب چکتا کرنے اور نئے مال کی بکنگ کروانے کے لیے، دو تین روز کے لیے فیصل آباد جانا پڑتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’چھ اکتوبر کی رات میں اپنے مینیجر کے ساتھ مظفرآباد سے فیصل آباد کے لیے روانہ ہوا۔ اگلی صبح ہم فیصل آباد پہنچ گئے۔ فیکٹریوں سے حساب کتاب چکتا کرنے میں ہمیں دو دن لگ گئے۔ اگلے دن ہم نے نئے مال کی بکنگ کروا کر واپس مظفر آباد آنا تھا کہ وہ بدقسمت گھڑی آ گئی جو وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ مجھے ایک ساتھی دکاندار کا فون آیا کہ مظفرآباد میں زلزلے کے باعث میرا گھر ملیا میٹ ہو چکا ہے اور میرا پورا خاندان، ملبے کے نیچے آ کر ختم ہو چکا ہے۔ میرا سب کچھ ختم ہو گیا سر۔ سارے خواب۔ جینے کا جواز نہیں رہا کوئی۔‘
اس کے ساتھ ہی محبوب عباسی نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ پروفیسر الماس صاحب، اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے خود بھی آبدیدہ ہو گئے۔
محبوب عباسی نے مزید بتایا کہ وہ اپنےاہل خانہ کو سپرد خاک کرنے کے بعد نیم پاگل ہو گیا اور ایک عرصے تک مختلف رشتے داروں کے پاس مقیم رہا جو اس کا ماہر نفسیات سے علاج کرواتے رہے۔ پھر اس نے دکان بھی فروخت کر دی کیونکہ اب وہ اس قابل نہیں تھا کہ کاروبار کو جاری رکھ سکتا۔ بالآخر جب طبعیت کچھ سنبھلی تو لاہور میں ایک خیراتی ادارے میں خدمت گار بن کر کام کرتا رہا۔ دکان بیچ کر جو لاکھوں روپے ملے تھے وہ بھی لاہور میں ایک یتیم خانے کو دے دیے۔
محبوب نے بتایا کہ ’خیراتی ادارے میں کچھ بے ضابطگیاں نظر سے گزریں تو اسے بھی خیر آباد کہہ کر ایک ہفتہ پہلے ملتان آ گیا ہوں۔‘
پروفیسر صاحب نے اسے تسلی دی کہ وہ اس کی ہر ممکن معاونت کے لیے تیار ہیں۔
محبوب عباسی نے کہا کہ ’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میرا اس دنیا میں اب کوئی نہیں رہا۔ بیٹی نے ایم بی بی ایس اور سپشلائزیشن کے بعد چین میں ہی میڈیکل کالج میں نوکری کرلی تھی اور اپنے ایک قطری کلاس فیلو کے ساتھ شادی کرکے وہیں سیٹل ہو گئی ہے، میں نے آپ کے ادارے اور آپ کی شخصیت کے بارے میں سنا تو جی چاہا کہ اپنی خدمات آپ کو پیش کروں۔‘
اس کہا کہ ’میں نے پرانے وقتوں کا بی اے کر رکھا ہے۔ میٹرک تک ریاضی کے علاوہ تمام مضامین پڑھا سکتا ہوں۔ مجھے کوئی تنخواہ وغیرہ نہیں چاہیے، اس قوم کے سب بچے میرے احسن، محسن ہیں، میں انہیں عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا جذبہ رکھتا ہوں تاکہ وہ ڈاکٹر، انجینیئر، بیوروکریٹ بن کر قوم و ملک کی خدمت کر سکیں۔‘
اس نے الماس صاحب سے وعدہ لیا کہ وہ اس کی غمزدہ داستان کسی کے ساتھ شیئر نہیں کریں گے کیونکہ وہ خوددار آدمی ہے اور اسے ہمدردیاں سمیٹنے کی عادت نہیں۔
پروفیسر الماس صاحب پر محبوب عباسی کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے مسلم اکیڈمی کے ہاسٹل وارڈن کو بلا کر کہا کہ محبوب عباسی صاحب ہمارے نئے فیکلٹی ممبر ہیں، انہیں ہاسٹل میں فیکلٹی روم الاٹ کر دیا جائے۔ پروفیسر صاحب نے اگلے روز ایک سینیئر استاد کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ محبوب عباسی صاحب کو اکیڈمی کے تمام سیکشنز میں لے جائے اور اساتذہ اور طلبہ سے متعارف کروائے۔
محبوب عباسی جس کلاس میں جاتا وہاں ایک جامع تقریر کرتا۔ بچوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ ابھارتا۔ اس کے خیالات سن کر بچے تو بچے، اساتذہ کا بھی دل پسیج جاتا۔
چند دنوں میں، محبوب عباسی، اکیڈمی کی مقبول اور محبوب ترین شخصیت بن گیا۔ اس کی مقبولیت سے متاثر ہو کر پروفیسر الماس صاحب نے اسے ’موٹیویشنل سپیکر‘ کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ جنہیں وہ بخوبی نبھانا جانتا تھا۔
دن کے اوقات میں محبوب عباسی کا زیادہ وقت الماس صاحب کے دفتر میں گزرتا۔ وہ انہیں اکیڈمی کو بہتر بنانے، اخراجات میں کمی لانے کے ایسے ایسے نسخے بتاتا کہ الماس صاحب اس کی ذہانت کی داد دیے بغیر نہ رہ پاتے۔
دو ماہ کے اندر محبوب عباسی کو وائس پرنسپل بنا دیا گیا۔ پروفیسر الماس صاحب زبردستی اس کی جیب میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم ڈال دیتے مگر وہ اس رقم سے بھی اکیڈمی کی تزئین و آرائش کے لیے کچھ نہ کچھ خرید لاتا۔
الماس صاحب نے وائس پرنسپل ہونے کے ناطے محبوب عباسی کو اکاؤنٹس سے متعلقہ معاملات کی نگرانی بھی سونپ دی جس میں بچوں کے داخلے، ماہانہ فیس کی کلیکشن، اساتذہ کی تنخواہوں اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگیاں بھی شامل تھیں۔
رفتہ رفتہ الماس صاحب کا محبوب عباسی پر اعتماد بڑھتا گیا، اگر اساتذہ میں سے کوئی الماس صاحب سے محبوب عباسی کے پس منظر کی بابت پوچھتا تو الماس صاحب یہ کہہ کر بات ختم کرتے کہ ہمارے قریبی عزیز ہیں، گاؤں میں تھے سو انہیں اپنی معاونت کے لیے بلایا ہے۔
مسلم اکیڈمی میں تین سوزوکی کیری ڈبے بھی موجود تھے جنہیں اقامتی طلبہ کو کہیں لانے لے جانے، یا اکیڈمی میس کا راشن لانے کے لیے استعمال میں لایا جاتا۔ اکیڈمی کا اکاؤنٹ مسلم کمرشل بینک میں تھا۔ محبوب عباسی ہر ماہ وصول شدہ فیسوں کی رقم، بینک میں جمع کروانے کے لیے، اکثر اکاؤنٹنٹ کے ساتھ جاتا اور واپسی پر جمع شدہ رقم کی تمام رسیدیں، الماس صاحب کو پیش کرتا۔
الماس صاحب بہت خوش تھے کہ انہیں، محبوب عباسی کی شکل میں ایک پرخلوص اور قابلِ اعتماد شخص مل گیا ہے جو ان کا سارا کام دیکھ رہا ہے اور انہیں ایک ایک چیز سے باخبر بھی رکھے ہوئے ہے۔ اساتذہ اور طلبہ بھی پرنسپل کی بجائے محبوب عباسی سے بات کرنے میں سہولت محسوس کرتے۔
یہ سلسلہ یونہی کوئی چھ ماہ تک چلتا رہا۔ پھر اچانک ایک دن الماس صاحب کے دفتر کے نمبر پر فون آیا۔ الماس صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے ندیم نامی شخص نے محبوب عباسی سے بات کروانے کا کہا۔
الماس صاحب نے اسے محبوب عباسی کے موبائل نمبر پر رابطہ کرنے کو کہا۔ ندیم نے ذرا درشت لہجے میں کہا، ’میں رات سے اس کے موبائل نمبر پر کال کر رہا ہوں، مگر نمبر بند جا رہا ہے۔ مجھے ہر حال میں گاڑی کے کاغذ چاہییں۔‘
الماس صاحب نے اس سے پوچھا، ’کھل کر بتاؤ بھائی، کیا چاہتے ہوں، کون سی گاڑی کے کاغذوں کی بات کر رہے ہو؟‘
ندیم نے بتایا: ’میں اقصٰی شو روم کا مالک ہوں۔ کل آپ کے وائس پرنسپل نے کیری ڈبہ بیچا تھا اور گاڑی کے کاغذ شام تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک کاغذوں کا ملنا تو درکنار، رابطہ تک نہیں ہو رہا۔ اوپر سے ہم نے آپ کے ادارے کی شہرت کو سامنے رکھتے ہوئے ساڑھے چار لاکھ کی پیمنٹ بھی کر دی تھی۔‘
الماس صاحب کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا، انہوں نے اپنے موبائل فون سے محبوب عباسی کے نمبر پر متعدد کالز کیں مگر وہ بند ملا۔
الماس صاحب نے فوراً ہاسٹل سے چیک کروایا تو چوکیدار نے بتایا کہ وہ کل رات سے ہاسٹل نہیں آئے اور کمرے میں ان کا سامان اور لیپ ٹاپ بھی نہیں ہے۔
الماس صاحب نے فیکلٹی کی ہنگامی میٹنگ بلائی اور تمام اساتذہ سے محبوب عباسی کی بابت پوچھا مگر کہیں سے کچھ سراغ نہ مل سکا۔
ادھر اکاؤنٹنٹ نے الماس صاحب کو بتایا کہ کل فیسوں کی مد میں جمع شدہ 12 لاکھ روپے محبوب عباسی صاحب بینک اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لیے لے کر گئے تھے مگر ابھی تک انہوں نے رسید نہیں دی۔ الماس صاحب نے تصدیق کے لیے فوراً بینک مینیجر سے رابطہ کیا۔ بینک مینیجر نے ریکارڈ چیک کرنے کے بعد بتایا کہ رواں ماہ ان کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم جمع نہیں ہوئی۔
پروفیسر الماس صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہوں نے ایک اجنبی شخص پر اس قدر اعتماد کیسے کر لیا۔
رفتہ رفتہ سکول کے اساتذہ کو بھی خبر مل چکی تھی کہ محبوب عباسی پروفیسر الماس صاحب کو لاکھوں روپے کا چونا لگا کر رفو چکر ہو چکا ہے۔
پروفیسر الماس صاحب نے اساتذہ کے اصرار پر متعلقہ ایس ایچ او ہونے کے ناطے مجھے فون کر کے اپنے ساتھ ہونے والی افسوس ناک واردات کا خلاصہ بتاتے ہوئے ملنے کا وقت مانگا۔
میں نے مسلم اکیڈمی کے حوالے سے پروفیسر الماس صاحب کا نام سن رکھا تھا۔ میں نے جواباً انہیں کہا کہ میں خود آپ کے پاس اکیڈمی آ رہا ہوں۔ کیس خاصا عجیب و غریب تھا اس لیے میں تمام تفصیلات جاننا چاہتا تھا، چنانچہ میں تھوڑی ہی دیر میں مسلم اکیڈمی پہنچ گیا۔
پرنسپل پروفیسر الماس اپنے کمرے میں انتہائی غمزدہ حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ انشا اللہ جلد ملزم قانون کی گرفت میں ہو گا۔ لیکن آپ کو تمام تفصیلات الف سے ی تک بتانا ہوں گی۔
پروفیسر صاحب نے مجھے محبوب عباسی سے ہونے والی ابتدائی ملاقات سے لے کر وقوعے کے روز تک پیش آمدہ تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جو آپ نے اوپر پڑھیں۔
انہوں نے درخواست کی کہ ان کی اکیڈمی کا ایک نام ہے، لوگ ان کی نیک نامی کی وجہ سے اپنے بچوں کو یہاں داخل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں ورنہ ملتان میں ایک سے بڑھ کر ایک ادارہ موجود ہے۔ اگر یہ ساری تفصیلات ایف آئی آر میں درج کی گئیں تو ہماری ساکھ متاثر ہو گی۔ پہلے پندرہ بیس لاکھ کا نقصان ہو چکا ہے، اب عزت بھی جاتی رہے گی لہذا وہ قانونی کارروائی نہیں چاہتے۔
میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے یقین دلایا کہ یہ آپ کا نہیں میرا نقصان ہے اور انہیں یہ بھی یقین دلایا کہ ان کی یا ان کے ادارے کی ساکھ پر کوئی آنچ نہیں آنے گی، مگر مقدمہ درج نہ کروانے سے ملزم کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ مزید آپ جیسے شرفا کو اپنے جال میں پھنسائے گا۔
میں نے لیگل برانچ سے مشورہ کر کے انہیں بتایا کہ وہ مقدمے کی درخواست بطور مہتمم مسلم اکیڈمی کی بجائے بطور عام شہری دے سکتے ہیں تاکہ ادارے کا نام بھی نہ آئے اور ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے ضابطے کی کارروائی بھی عمل میں لائی جا سکے۔
بالآخر بڑے رد و کد کے بعد پروفیسر الماس صاحب اندراج مقدمہ کے لیے تیار ہوگئے۔
الماس صاحب کے پاس محبوب عباسی کے شناختی کارڈ کی کاپی کے سوا کوئی ڈاکومنٹ موجود نہیں تھا۔ وہ کاپی بھی شاید الماس صاحب نے ان کا جوائنٹ بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے لی تھی مگر بعد میں محبوب عباسی کے انکار پر اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔
پروفیسر الماس صاحب کی مدعیت میں مقدمہ زیر دفعہ 420/468 /471 /406 تعزیرات پاکستان درج ہوا۔ الماس صاحب کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر میں مدعیت کے خانے میں ان کا نام اور شناختی کارڈ کے مطابق آبائی گھر کا پتہ درج کیا گیا تھا۔
تفصیلات سے واضح تھا کہ ملزم انتہائی چالاک، ہوشیار اور پختہ کار تھا۔ میں نے الماس صاحب سے محبوب عباسی کے شناختی کارڈ کی کاپی لی۔ شناختی کارڈ پر مظفرآباد کا ایڈریس دیا ہوا تھا۔
میں نے نادرا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں تعینات ایک دوست کو فون کیا اور محبوب عباسی کے شناختی کارڈ کا ڈیٹا اور اس کے دیگر اہل خانہ کے کوائف فراہم کرنے کی درخواست کی۔
میرا خیال تھا کہ کچھ نہ کچھ سرا ہاتھ آئے گا مگر نادرا آفس کی طرف سے جو جواب آیا وہ سخت مایوس کن تھا۔ اس شناختی کارڈ کی معلومات میں کوئی خاندانی معلومات درج نہیں تھیں۔
میں نے مظفرآباد کے رہائشی اپنے ایک پرانے یونیورسٹی کلاس فیلو کو بذریعہ فون اس واردات کی تفصیلات بتائیں اور شناختی کارڈ پر درج ایڈریس کے مطابق ملزم کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی درخواست کی۔
میرے پیشہ وارانہ تجربے کے مطابق اگر کوئی ملزم کسی دوسرے صوبے یا علاقے کا رہائشی ہو تو اس علاقے کی پولیس سے رابطہ کرنے سے پہلے اس ملزم کے بارے میں معلومات کے لیے کسی مقامی سورس کو استعمال کیا جانا زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے۔
اگلے چند گھنٹوں میں میرے دوست نے مجھے دوسری مایوس کن خبر سنائی کہ شناختی کارڈ پر دیا گیا ایڈریس نہ صرف جعلی ہے بلکہ پورے علاقے میں اس نام کا کوئی شخص سکونت پذیر نہیں رہا۔
مجھے یقین ہو چکا تھا کہ یہ شناختی کارڈ جعلی نام سے بنایا گیا ہے اور اس میں درج تمام کوائف بھی فرضی ہیں، لہٰذا ان کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا محض وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ میں نے سب سے پہلے نادرا کے ذریعے اس شناختی کارڈ کو بلاک کروایا تاکہ ملزم اس شناختی کارڈ کو کہیں اور استعمال نہ کرسکے۔
میں نے پروفیسر صاحب سے رابطہ کر کے انہیں کہا کہ وہ سٹاف سے بھی رابطہ کریں اور ریکارڈ بھی چیک کریں شاید کہیں ملزم محبوب عباسی کا کوئی فنگر پرنٹ مل جائے کیونکہ شناختی کارڈ پر دی گئی تمام معلومات فیک ہیں۔
اس تفتیش کو آگے بڑھانے کے لیے کسی نئی شہادت کا ملنا انتہائی ضروری تھا۔
اللہ کا کرم ہوا اور ایک گھنٹے کے بعد پروفیسر الماس صاحب نے بذریعہ فون بتایا کہ پڑتال ریکارڈ سے دو ماہ قبل کا ایک سٹامپ پیپر مل گیا ہے جس پر بطور گواہ محبوب عباسی کے دستخط اور نشان انگوٹھا موجود ہیں۔
میرے لیے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی۔ پروفیسر الماس صاحب نے بتایا کہ ہم نے اکیڈمی کے ساتھ ملحقہ اڑھائی مرلے کا ایک قطعہ اراضی دو ماہ قبل پانچ لاکھ کے عوض ایک پارٹی سے خریدا تھا کیونکہ ہمیں پارکنگ کے لیے جگہ کی اشد ضرورت تھی۔ محبوب عباسی ہی اس وقت میرے ساتھ تھا اس نے بطور گواہ ایگریمنٹ ڈیڈ پر دستخط کیے اور سٹامپ فروش کے اصرار پر اسے مجبوراً انگوٹھا بھی ثبت کرنا پڑا، اگرچہ وہ اس پر آمادہ نہیں تھا۔
میں نے نادرا ہیڈکوارٹر میں تعینات اپنے اسی دوست سے دوبارہ مدد کی درخواست کی اور اسی کی ہدایت پر سٹامپ پیپر دے کر اے ایس آئی (تفتیشی افسر) کو نادرا ہیڈکوارٹر اسلام آباد بھجوایا۔ جب ان فنگر پرنٹس کی جانچ پڑتال کی گئی تو مفید دو باتیں سامنے آئیں۔ ایک تو یہ کہ یہ نشان انگوٹھا محبوب عباسی کے آئی ڈی کارڈ پر لگائے گئے نشان انگوٹھا سے قطعی مختلف تھا، چنانچہ میرا شک درست ثابت ہوا۔ یہ شناختی کارڈ مکمل طور پر فیک تھا۔
دوسری طرف سٹامپ پیپر پر لگا ہوا نشان انگوٹھا ایک اور آئی ڈی کے ساتھ سو فیصد میچ کر گیا۔ جو معلومات سامنے آئیں ان کے مطابق اس شخص کا نام اسلم اقبال ولد محمد اقبال تھا اور یہ فیصل آباد کا رہنے والا تھا۔ اس کے ساتھ ہمیں اس شخص کے پورے خاندان کا ریکارڈ بھی مل گیا۔
اب گتھیاں سلجھ رہی تھیں۔ ملزم تک رسائی کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔ اب ہمیں اسلم اقبال المعروف محبوب عباسی بطور ملزم مطلوب تھا۔
ہم نے اسلم اقبال ولد محمد اقبال کا ریکارڈ تھانہ غلام محمد آباد فیصل آباد سے چیک کروایا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق وہ عدم ریکارڈ یافتہ تھا یعنی اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا۔ یہ بات بھی میرے لیے انتہائی حیران کن تھی۔
ہم اس کے نشان انگوٹھا سے سامنے آنے والی نئی تفصیلات، نام، ولدیت، گھر کا پتہ سب خفیہ طور پر تصدیق کروا چکے تھے جبکہ ملزم کے اہل محلہ نے اس کی تصویر دیکھ کر اس کی شناخت کی تصدیق بھی کر دی تھی۔
میں نے افسران بالا کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور خود اللہ کا نام لے کر فیصل آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر حسب ضابطہ ملزم کے رہائشی تھانہ میں رپورٹ درج کی اور مقامی پولیس کو ساتھ لے کر ملزم کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
ہمارا ایک مقامی مخبر ہمیں ملزم کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دے رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ملزم اسلم اقبال اس وقت اپنے گھر کی بجائے ریلوے کالونی میں اپنے بڑے بھائی کے گھر پر موجود ہے، چنانچہ ہم نے مخبر کے بتائے ہوئے پتے پر فوری چھاپہ مارا اور ملزم کو گرفتار کرلیا۔
ملزم اسلم اقبال نے دوران تفتیش ہوش ربا انکشافات کیے۔ اس نے دوران تفتیش بتایا کہ اس کی تعلیم صرف میٹرک ہے اور اس نے کمپیوٹر میں ڈپلوما کر رکھا ہے اور وہ گذشتہ دس سالوں سے صرف نوسربازی کے ذریعے عیش کی زندگی گزار رہا ہے۔
اس نے لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، ایبٹ آباد، ساہیوال اور ملتان میں 18 وارداتوں کا انکشاف کیا۔
پوچھ گچھ سے سامنے آیا کہ اسلم اقبال ایک انتہائی مکار شخص تھا، اس نے ہر واردات ایک نئے نام، نئے طریقے اور نئے سکرپٹ کے ساتھ کی۔ واردات سے قبل وہ اپنے ہدف پر ایک ماہ تک کام کرتا، حکمت عملی ترتیب دیتا اور پھر واردات کا ارتکاب کرتا۔
چونکہ اس نے کسی واردات میں بھی اپنا اصل نام کبھی ظاہر نہیں کیا تھا، اس لیے اس کے رہائشی تھانے میں بھی اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا، وہ واردات میں لوٹے گئے پیسوں کو سٹاک مارکیٹ میں بروکر کے ذریعے انویسٹ کرتا تھا یا آن لائن کرپٹو کرنسی خرید لیتا تھا۔
مسلم اکیڈمی سے لوٹے ہوئے پیسوں میں سے بھی صرف چار لاکھ روپے برآمد ہو سکے جو اس نے اقصٰی شو روم میں گاڑی فروخت کر کے لیے تھے۔ باقی رقم کی وہ کرپٹوکرنسی خرید چکا تھا۔ میں نے مدعی مقدمہ پروفیسر الماس صاحب کو سمجھایا کہ وہ ایک نئے مقدمے کے اندراج کے لیے ایف آئی اے میں درخواست دائر کریں کیونکہ اس کا آن لائن ناجائز دھندہ سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے جو پولیس کی بجائے ایف آئی اے کا دائرہ اختیار ہے۔
لیکن شاید الماس صاحب اپنے ادارے کی ساکھ کے متاثر ہونے کے پیش نظر ہچکچاہٹ کا شکار تھے اور انہوں نے اسی چار لاکھ کی برآمدگی کو غنیمت جانا۔
ملزم اسلم اقبال کے اہل علاقہ یہی جانتے تھے کہ اسلم اقبال گذشتہ دس سال سے چین میں کاغذ بنانے اور امپورٹ کرنے والی ایک بڑی پارٹی کے ساتھ منسلک ہے، اس لیے اس کے لمبے عرصے تک غائب ہونے پر یہی تاثر جاتا کہ کہ وہ ملک سے باہر گیا ہوا ہے۔
ملزم نے بتایا کہ وہ شروع میں مختلف پرائیویٹ کمپنیوں میں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ 1994 میں اس کی شادی ہوئی، لیکن انتہائی کم تنخواہ اور لمبے اوقات کار کی وجہ سے اس کی اکثر اوقات گھر میں لڑائی رہتی، یہ شادی بمشکل آٹھ ماہ چلی اور پھر اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ اس کے بعد سے اس نے کمپیوٹر آپریٹر کی نوکری چھوڑ کر انتقاماً نوسرباز بننے اور دولت جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہم نے اس کی تفتیشی رپورٹ تمام انکشافات کے ساتھ ان تمام تھانوں کو ارسال کی جہاں وہ وارداتوں کا ارتکاب کر چکا تھا۔ ملزم اسلم اقبال کو تمام ثبوتوں کے ساتھ مقدمے میں چالان کیا گیا۔ اسے فراڈ، دھوکہ دہی کے جرم میں عدالت کی جانب سے تین سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
آخری اطلاعات تک وہ کسی اور فراڈ کے مقدمے میں ایبٹ آباد کی جیل میں قید تھا۔