یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
جو بائیڈن عمران خان سے کیوں خفا ہیں، وہ انہیں فون کیوں نہیں کر رہے اور امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف بل کیوں پیش کیا گیا ہے؟ یہ سوالات سنجیدہ مباحث کا مرکزی نکتہ ہونے چاہیے تھے لیکن ہمارے ہاں انہیں جگت بازی اور تفنن طبع کی نذر کر دیا گیا۔
امریکی صدر اگر عمران خان کو فون نہیں کر رہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس پر دیوان لکھے جائیں یا عمران خان پر جگتیں لگائی جائیں۔ ممالک کے تعلقات میں یہ اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ اتنی سی بات کو خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تعلقات میں اگر تناؤ ہے بھی تو امریکہ کی نازک مزاجی غلط یا درست کا فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ اس کا فیصلہ اس بات سے ہو گا کہ کیا افغانستان میں واقعتاً پاکستان نے کچھ غلط کیا ہے۔
عمران خان نے امریکی انتظامیہ پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ کسی دوسرے اور تیسرے درجے کے امریکی اہلکار سے بات نہیں کریں گے۔ ان سے بات کرنی ہے تو امریکی صدر خود کریں۔ امریکی صدر نے زبان حال سے کہہ دیا کہ فی الوقت اس کی ضرورت نہیں۔ بس اتنی سی بات ہے، افسوس کہ معید یوسف کی غیر ذمہ دارانہ طرز گفتگو نے اس کو فسانہ بنا دیا اور اب یہ حکومت کی چھیڑ بن چکی ہے۔
خود عمران خان کا یہ دیرینہ مسئلہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر مسئلے پر رہنمائی فرما سکتے ہیں لیکن خاموش کسی مسئلے پر نہیں رہ سکتے۔ ایک ایسے مرحلے پر جہاں جنگ ختم ہو رہی ہے، مفروضے پر مبنی ایک سوال کے جواب میں Absolutely Not کا رجز پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں تھے تو Absolutely Not کس بات کا؟ نیم خواندہ معاشرے میں داخلی سیاست کے تقاضے پورا کرنے کے لیے بہادری دکھانا ضروری ہو تو کم از کم اس کا موقع محل دیکھ لینا چاہیے۔ تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں معاملہ عمران خان کی ذات کا نہیں ہے، یہاں اس کا عنوان پاکستان ہے۔
آج عمران کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ ان کی تو کوئی حیثیت نہیں اور وہ محض اسلام آباد کے میئر ہیں اس لیے امریکی صدر ان سے بات نہیں کرنا چاہتے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حامد کرزئی اور اشرف غنی دنیا کے دو براعظموں پر دو تہائی اکثریت سے جیتے تھے کہ ان سے امریکی صدور دکھ سکھ بانٹ لیا کرتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ نوازی، آمریت اور جمہوریت یہ سب باتیں برائے وزن بیت ہوتی ہیں، مفاد ہو تو سب اچھا ہو جاتا ہے اور مفاد نہ ہو تو کچھ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ خود پاکستان سے امریکہ کے تعلقات کا سنہرا دورانیہ وہی ہے جب یہاں آمریت ہوتی تھی۔
امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف بل کا آ جانا کوئی ایسی بات نہیں کہ یہاں ہمارا خون خشک ہو جائے۔ اپنی غلط پالیسیوں کے نتائج کوئلے کی صورت ہتھیلی پر رکھ کر، اب پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر امریکہ اسی طرح داخلی سیاست کے تقاضے پورا کر رہا ہے جیسے عمران خان نے Absolutely Not کہہ کر داخلی سیاست میں اپنی بہادری کا سکہ چلانے کی کوشش کی تھی۔ خطے میں بہت کچھ بدل رہا ہے۔ ایسے میں آرم ٹوسٹنگ کوئی حیران کن بات نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں ایسا کیا غلط کیا ہے کہ امریکی اس حد تک رد عمل دے رہے ہیں؟
کیا طالبان نے یہ جنگ پاکستان کی مدد سے جیتی؟ جب تک امریکہ افغانستان میں رہا، پاک افغان سرحد کے ایک ایک چپے پر اس کی نظر تھی۔ اس سارے دورانیے میں پاکستان نے اگر طالبان کی مدد کی ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا، یہ قدم جدید ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نظر سے اوجھل رہ پاتا ؟کیا آج تک ایسا کوئی ثبوت سامنے آیا؟
امریکی انخلا کے وقت بھی یہ عملاً ممکن نہیں تھا کہ پاکستان طالبان کو کسی بھی قسم کی عسکری امداد دیتا۔ اربوں ڈالر خرچ کرکے امریکہ نے افغانستان میں جو فوج تیار کی تھی وہ طالبان کے آگے ڈھیر ہو گئی تو اس کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ وہ فوج اور اس کو تربیت دینے والے ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی اتنی تیز اور اچانک تھی کہ سب حیران رہ گئے۔ اگر پاکستان نے امداد دی ہوتی تو امداد کے پہنچنے اور وصول کرنے میں کچھ وقت تو لگتا۔ لیکن یہاں تو عالم یہ تھا کہ ابھی انخلا ہوا نہیں تھا اور طالبان کابل پہنچ چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک رائے یہ ہے کہ اس مرحلے پر پاکستانی قیادت نے غیر ضروری عجلت کا مظاہرہ کیا۔ وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو کابل نہیں جانا چاہیے تھا۔ ناقدین کے خیال میں وزیراعظم کو بھی بار بار افغانستان کا ذکر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بلاوجہ یہ تاثر جاتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ رائے بھی ناقص ہے۔ کابل صرف پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی نہیں گئے تھے، سی آئی اے کے چیف بھی گئے تھے کیونکہ یہ موقع کی نزاکت کا تقاضا تھا۔
امریکہ تو صرف انخلا کر رہا تھا، پاکستان نے ان کے پڑوس میں رہنا تھا۔ افغانستان سے ابھرتے چیلنجز معمولی نہیں ہیں۔ ان چیلنجز کو ایڈریس کرنا ضروری تھا۔ ٹی ٹی پی کی شکل میں ہم بہت نقصان اٹھا چکے۔
ہمارے بطور ریاست تحفظات تھے۔ جتنے تحفظات ایک پڑوسی کے طور پر ہمارے ہیں، خطے کے کسی ملک کے نہیں۔ ہم افغانستان میں خرابی حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اس مرحلے پر صرف پناہ گزینوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تو پاکستان مسائل میں الجھ کر رہ جاتا۔ ایسے میں پاکستانی قیادت کابل چلی گئی اور وہاں کی قیادت سے بات چیت کر آئی تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟
عمران خان نے ٹی ٹی پی سے بات چیت کرنے اور انہیں معافی دینے کی بات کی تو اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی عجیب عجیب تشریح بیان کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی فالٹ لائنز کو بھرنے کا حق نہیں ہے؟
کیا یہ ضروری ہے کہ ملک کو ہمیشہ میدان جنگ بنا کر رکھا جائے اور دشمن کے لیے خام مال ہر وقت دستیاب رکھا جائے تاکہ وہ کسی موقع پر اس خام مال سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اسے کوئی پریشانی نہ ہو۔ انسانی نفسیات بھی یہ بتاتی ہے کہ عسکریت پسند گروہوں کے لیے واپسی کا راستہ کھلا رکھنے سے وہ گروہ کمزور ہوتا ہے اور اس میں سے غالب یا معقول اکثریت قومی دھارے میں لوٹ آتی ہے۔
اس میں کیا کلام ہے کہ عمران خان نے بہت مایوس کیا ہے لیکن عمران کے مقامی ناقدین کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ زیر نظر مقدمہ عمران خان کا نہیں، پاکستان کا ہے۔