امریکہ میں آج ایک نئی انتظامیہ نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کی بہتری کے لیے کام کرنے کا خواہاں ہے۔
گذشتہ روز جاری ہونے والے ایک بیان میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا پاکستان کے لیے ایک اچھا آغاز یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ میں اہم عہدوں کے لیے نامزد اہم شخصیات میں سے بہت اس سے قبل اوباما انتظامیہ کا حصہ رہی ہیں، اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملے گا جو خطے سے گہری واقفیت رکھتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن، فارن ریلیشنز کمیٹی کے بہت متحرک اور فعال رکن رہے تھے۔ وہ پاکستان کا دورہ بھی کرچکے ہیں اور جنوبی ایشیائی خطے اور پاکستان کے حوالے سے واضح رائے رکھتے ہیں۔ انہیں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ہلال پاکستان کے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ اس کی وجہ جو بائیڈن کے جنرل مشرف کو اقتدار سے ہٹانے یعنی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کوششیں تھیں۔
پاکستان کی بائیڈن سے کئی معاملات پر توقعات ہیں۔
افغانستان
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے دونوں ممالک کے نکتہ نظر میں مطابقت ہے۔ یہ مطابقت بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری دو سالوں میں حاصل ہوئی۔ افغان طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہوئے اور دوحہ میں گذشتہ برس امن معاہدے پر دستخط کیے۔ دوحہ امن سلسلہ ابھی بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ جاری ہے۔
جو بائیڈن نے ابھی افغان پالیسی کھل کر واضح نہیں کی ہے۔ دیکھنا یہی ہوگا کہ یہ مطابقت جاری رہتی ہے یا نہیں۔ اس کا انحصار امریکی فوجوں کی افغانستان کے انخلا اور دوحہ میں جاری مذاکرات کے کسی نتیجے پر منحصر ہے۔
مسئلہ کشمیر
پاکستان اور بھارت کے درمیان عرصہ طویل مسئلہ کشمیر پر ہر امریکی انتظامیہ کی پالیسی تقریباً ایک سی رہی ہے یعنی کسی صورت بھی بھارت کو ناراض نہیں کرنا۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیرروایتی صدر تھے اور انہوں نے اس کا ثبوت مسئلہ کشمیر پر کھل کر ثالثی کی پیشکش کے ذریعے دیا لیکن بھارت کے لیے یہ قابل قبول نہ تھا لہذا کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
تاہم پاکستان تقریباً ہر نئی امریکی انتظامیہ کی طرح اس سے بھی توقع کر رہا ہے کہ نئی انتظامیہ 80 لاکھ کشمیریوں کو بھارتی استبداد اور بلا جواز محاصرے سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہو گی۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے جس طرح یورپی اور برطانوی پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی گئی ’انشا اللہ جلد امریکی کانگرس میں بھی اس کی بازگشت سنائی دے گی۔‘
تاہم چین کے تناظر میں امریکہ بھارت پر کوئی غیرمعمولی دباؤ نہیں ڈالے گا۔
معاشی تعاون
امریکہ کی جانب سے مختلف شعوبوں میں تعاون تو جاری ہے لیکن اس میں کمی آئی ہے۔ پاکستان کو یقین ہے کہ اسے اس کے جغرافیائی خدوخال اور جغرافیائی معاشی حیثیت کے باعث نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ پاکستان چین راہداری کا منصوبہ امریکیوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا لیکن اسلام آباد کا موقف ہے کہ اگر اقتصادی راہداری کے تحت قائم ہونے والے خصوصی اقتصادی زونز میں امریکی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنا چاہیں گے تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کا چین کے ساتھ رویہ محاذ آرائی کا نہیں بلکہ مسابقت کا ہے۔
جو بائیڈن ہمسائہ ملک ایران کے بارے میں کیا پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں اس سے بھی پاکستان کی معیشت پر منفی یا مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوجوانوں کے تناسب کے حوالے سے اور معاشی امکانات کے حوالے سے پاکستان سمجھتا ہے کہ دو طرفہ تعاون کے فروغ کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
فوجی تعاون
سابق صدر ٹرمپ نے پاکستان پر شدت پسندوں کے خلاف ان کی مرضی کی کارروائی نہ کرنے اور ’جھوٹ اور فریب‘ کا الزام عائد کر کے 2018 میں کولیشن سپورٹ فنڈ بند کر دیا تھا۔ اس سے پاکستان کو سویلین و عسکری امداد ملنا رک گئی تھی۔ پاکستان اس فیصلے پر نظر ثانی چاہے گا۔
اس کے علاوہ ٹرمپ نے پاکستان کے فوجیوں کی امریکہ میں تربیت پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ 2018 میں اس فیصلے سے تقریباً 66 پاکستانی فوجی افسران امریکی عسکری تربیتی اداروں میں تربیت سے محروم رہ گئے تھے۔ انہیں یو ایس نیول اور آرمی وار کالجز میں یہ اہم تربیت حاصل کرنا تھی۔ پاکستانی فوج اس کی بحالی کی بھی متمنی ہوگی۔
فیٹف
پاکستان پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمائے کے استعمال کو روکنے کے لیے شدید دباؤ تھا۔ اسی وجہ سے وہ مسلسل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں چلا آ رہا ہے۔ پاکستان نے اسے دیئے گئے اہداف میں کافی پیش رفت حاصل کی ہے لیکن ابھی بہت کچھ باقی بھی ہے۔
صحافی اور ’دا ڈپلومیٹ‘ کے نامہ نگار عمیر جمال کہتے ہیں کہ جو بائیڈن شاید فیٹف کے دباؤ میں پاکستان کی کم از کم اہداف کے حصول سے قبل مدد نہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں: ’یہ فورم اسلام آباد سے مزید پیش رفت کی توقع جاری رکھے گا۔ پاکستان نئی انتظامیہ سے محض اس لیے کہ اس نے افغانستان پر تعاون کیا ہے فیصلہ کن مداخلت کی توقع نہ کرے۔‘