گذشتہ ہفتے بھاری اکثریت سے عام انتخابات جیتنے والے نریندر مودی دوسری بار بھارت کے وزیراعظم کے عہدے کا حلف جمعرات 30 مئی کو اٹھائیں گے۔ اس تقریب میں بہت سے ممالک خاص طور پر سارک کے رکن ممالک کے سربراہان شامل ہوں گے۔ مگر کیا پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو بھی مدعو کیا جائے گا یا نہیں اس حوالے سے میڈیا پر چہ مگوئیاں گردش کر رہی ہیں۔
عمران خان نے چند روز قبل مودی سے رابطہ کرکے انہیں انتخابات جیتنے پر مبارک باد دی تھی اور دونوں ممالک کے عوام کی بہتری کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ لیکن جہاں پاکستان کو مودی کی حلف برداری میں شرکت کے لیے بھارت کی جانب سے ابھی تک کوئی سرکاری دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا، وہیں بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو اس تقریب میں نہ بلائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
’ہمیں یہی توقع تھی‘
اپوزیشن میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تاج حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو تقریب حلف برداری میں نہ بلانا موجودہ بھارتی پالیسی کا حصہ ہے۔ ’ہمیں یہی توقع تھی کہ انہیں مدعو نہیں کیا جائے گا کیونکہ بھارت میں انڈین طالبان کی فتح ہوئی ہے جو کہ سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔‘
تاج حیدر کا کہنا تھا کہ وہ لائن آف کنٹرول پر بڑا خطرہ دیکھ رہے ہیں اور موجودہ بھارتی پالیسی کے ساتھ جنوبی ایشائی خطےمیں امن نہیں ہو سکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور وزیر اطلاعات پنجاب صمصام بخاری نے کہا کہ سفارتی اخلاقیات کے تحت تو وزیراعظم عمران خان کو حلف برداری میں بلایا جانا چاہیے تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد یہی توقع تھی۔ ’ہمیں کوئی ایسی خواہش بھی نہیں کہ ہمیں بلایا جائے کیونکہ حالیہ بھارتی انتخابات کے نتائج نے بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کر دیا ہے۔‘
گذشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ رسمی طور پر حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونے سے زیادہ بہتر ہے کہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر، سیاچن اور سر کریک تنازعات پر بات چیت کے لیے میٹنگ کریں۔
برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کے خیال میں پاکستان اور بھارت کی مثال سیامی بلی کے جڑواں بچوں جیسی ہے جو اپنے بچاؤ کے لیے ایک دوسرے کو ٹھوکر مارتے ہیں۔
انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان نے شروع میں امید ظاہر کی تھی کہ مودی کا چنائو بہتر ہو گا اور وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے مل کر کام کر سکیں گے، لیکن بدقسمتی سے ایک بڑی فتح لے کر مودی سرکار مغرور ہو گئی ہے۔‘
واجد شمس الحسن کے مطابق، مودی سرکار نے پلوامہ حملہ کا استحصال کرنے کی کوشش کی۔ ’انہوں نے سوچا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر کارروائی انہیں بھارتی انتخابات میں فائدہ دے گی مگر اس کا انجام اچھا نہیں ہوا کیونکہ وزیر اعظم عمران خان اور پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھارتی پائلٹ واپس کر کے ان کی چال ناکام بنا دی تھی۔ اب جب مودی اپنی مقبولیت کی انتہا پر ہیں تو کسی کو بھی یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ایک ایسے حریف کو بلائیں گے جس کے ساتھ وقتاً فوقتاً ٹکرائو ہوسکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب تجزیہ نگار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو دعوت نامہ نہ ملنے سے ان کی بچت ہوگئی کیونکہ ان کی شرکت کی وجہ سے قوم کی دو رائے ہوجاتی۔ انہوں نے کہا: ’اگرعمران خان کو بلایا جاتا اور وہ نہ جاتے تو کچھ حلقوں نے الزام لگانا تھا کہ وہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں چاہتے۔ اور اگر جانے کا فیصلہ کرتے تو بھی انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔ مودی سرکار بھی تعلقات کی بہتری کی خواہاں نہیں ہے اسی لیے تو سارک کانفرنس دو مرتبہ ان کے انکار کی وجہ سے ملتوی ہوئی۔‘
’سنہری موقع کھو دیا‘
بھارت میں اس معملے پر ملے جلے تاثرات ہیں۔ بھارت کے معروف اردو روزنامہ ’ملاپ‘ کے ایڈیٹر رشی سوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کو نہ بلانا ایک سنہری موقع کھونے کے برابر ہے، لیکن یہاں میڈیا سمیت سبھی کا فیصلہ ہے کہ بھارت اور پاکستان میں تب تک کوئی بات چیت نہیں ہوگی جب تک پاکستان بھارت کے خلاف اپنی زمین سے ہونے والی دہشت گردی کو نہیں کنٹرول کرتا۔‘
2014 میں مودی کی پہلی حلف برداری تقریب پر تب کے وزیر اعظم نواز شریف کو بلائے جانے کو سبھی نے مثبت نگاہ سے دیکھا تھا۔ مگر اس کے بعد سے کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ گئی۔ ان میں سے سب سے حالیہ مثال رواں سال فروری کی ہے جب بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ملوامہ حملے کے بعد دونوں مملک میں تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔
مودی نے اپنی انتخابی مہم بھی اسی وعدے پر چلائی کہ وہ پاکستان کے لیے ایک سخت حریف ہوں گے۔
رشی سوری کے مطابق، بھارتی عوام اور میڈیا میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عمران خان کو نہ بلانے کا فیصلہ وقت کی ضرورت کے تحت ٹھیک ہے اور عوام یہ رائے رکھتی ہے کہ بھارت سرکار پاکستانی سرکار سے تب تک بات نہ کرے جب تک کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں نہ لائے۔
انہوں نے کہا: ’شاید موجودہ حالات میں حکومت نے انہیں نہ بلانا ہی بہتر سمجھا ہے مگر میں پرعظم ہوں کہ آئیندہ آنے والے وقتوں میں دونوں ممالک کے سربراہان کو ملنے اور بات کرنے کے مواقع ضرور ملیں گے اور دونوں ممالک میں حالات کو بہتر کرنے پر پھر سے بات چیت چلے گی اگر اس سے پہلے کوئی دہشت گردی کا واقع نہ ہو۔‘