واقعات نے کچھ ایسا موڑ لیا کہ 10 اکتوبر 1999 کی یاد تازہ کر دی۔
اس صبح اس وقت کے ڈیفنس سیکرٹری ریٹائرڈ جنرل افتخار علی خان کو وزیراعظم ہاؤس سے فون آیا۔ فون کرنے والا بہت نالاں تھا کیونکہ ایک اخبار میں خبر چل گئی تھی کہ کور کمانڈر جنرل طارق پرویز کو عہدے سے اس لیے ہٹایا جا رہا ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کو بغیر آرمی چیف کی اجازت کے ملے تھے۔
یہ معاملہ شہباز شریف اور چوہدری نثار وزیراعظم سے پہلے ہی اٹھا چکے تھے جنرل مشرف کا پیغام بھی دے دیا تھا کہ فوج کے ڈسپلین اور کمانڈ کے برعکس قدم اٹھانے والے کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ وزیراعظم نے بادل ناخواستہ یہ بات مان لی تھی۔
معاملات پیچیدہ تھے کور کمانڈر کوئٹہ مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما اور نواز شریف کے ساتھی ریٹائرڈ کیپٹن راجہ نادر پرویز کے بہنوئی تھے۔ خبر کو واپس لینے کا کہا گیا اس کی تردید کرنے کا کہا گیا۔ بہرحال ایسا نہ ہوا اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
البتہ 2018 کے الیکشن کے بعد جس میں عمران خان ووٹوں اور فوج کی مبینہ مدد سے وزیراعظم بنے۔ تین سال تک ایک پیج، ایک سوچ اور یکساں مقاصد کے بارے میں پی ٹی آئی کی حکومت سے اور گاہے بگاہے سننے کو ملتا رہا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا ہے خاص طور پر اگر آپ طاقت کے اس کھیل میں اس خام خیالی میں ہوں کہ دوستی اور احسان مندی ہر الجھے ہوئے معاملے کو سلجھا سکتی ہے۔
معاملات کھل کر 11 روز پہلے سامنے آئے۔ چھ اکتوبر کو وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی پر کچھ کشیدگی اور اختلاف رائے پیدا ہوا۔
موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی پشاور تعیناتی پر وزیراعظم نے فوجی اعلان پر سوال یہ اٹھایا کہ یہ تعیناتی تو وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔
باوجود اس کے کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان ایک اور ملاقات ہوئی جس کے بعد کہا گیا کہ تمام معاملات طے پا گئے ہیں۔ لیکن اس اجلاس کو بھی پانچ روز ہوگئے ہیں اور معاملات کے طے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں مل رہا۔
عسکری ذرائع سے معلوم ہوا کہ آرمی چیف نے دوسری ملاقات میں وزیراعظم کو جنرل فیض کو نومبر کے اواخر تک رکھنے کی تجویز دی۔
کہا یہ جاتا ہے کہ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ 25 نومبر کے بعد جنرل فیض کا پشاور جانا اور کمانڈ سنبھالنا لازمی ہوگا اگر ان کو اگلے آرمی چیف کی دوڑ میں شامل کرنا ہے۔ اس تجویز کا بظاہر وزیراعظم کے فیصلے پر اب تک کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔
آخر وزیراعظم کہہ کیا رہے ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ میں وزیراعظم ہوں اور ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ میرے ماتحت ہے۔ کون یہ تعیناتی کرے گا اس کا فیصلہ میں کروں گا۔ اسے ہٹانا بھی میرا فیصلہ ہوگا۔
نمبر دو جنرل فیض حمید کو ابھی اسی پوسٹ پر رکھا جائے کیوں کہ افغانستان کے معاملات پیچیدہ ہیں ایک حساس موڑ پر ہیں اور ان کو جنرل فیض سے زیادہ بہتر کوئی نہیں سنبھال سکتا۔
نمبر تین کہ مجھے جی ایچ کیو سے تین ناموں کی سمری بھیجی جائے اور پھر میں فیصلہ کروں گا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کون بنے گا۔ نمبر چار جو کہ اب وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم جن تین جنرلوں کے نام آئیں گے وہ ان سے ملاقات یا پھر انٹرویو کریں گے۔
وزیراعظم کوئی فوری فیصلہ کرتے ہوئے بظاہر دکھائی نہیں دے رہے البتہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے تعلقات کے حوالے سے بیانات مثبت دیے جا رہے ہیں۔
یہ بیانات وزیراعظم اور ان کے وزرا تواتر سے دے رہے ہیں۔ اور لگے ہاتھوں اپوزیشن کو بھی حکومت آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اپوزیشن حکومت اور فوج کے درمیان ناچاقی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ کہ اپوزیشن کی تمام کوششیں ناکام ہوں گی۔
وزیراعظم کے کیمپ سے جو بھی کہا جائے معاملات کے بارے میں عسکری ذرائع اپنے حقائق پیش کرتے ہیں۔
نمبر ایک وزیراعظم ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی آرمی چیف کی مشاورت سے کرتے ہیں لیکن آرمی کے کور کمانڈر کی تعیناتی آرمی چیف کی صوابدید ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کورکمانڈر بھی ہیں اور ان کی ٹرانسفر ایک متعین عرصہ کے بعد آرمی چیف کریں تو اس میں وزیراعظم کے اختیارات میں کوئی مداخلت نہیں۔
نمبر دو کہ افغانستان پر وزیراعظم کے کسی ایک جنرل پر اعتماد شاید حقیقتا درست نہیں کیونکہ آئی ایس آئی میں افغانستان پر ایک پوری ٹیم کام کرتی ہے جس کی سربراہی ایک میجر جنرل کرتے ہیں ہے۔ ادارہ کسی ایک شخص پر انحصار نہیں کرتا۔
نمبر تین یہ کہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں دو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوئے جو مشاورت سے ہوئے لیکن اس میں کوئی سمری نہیں بھیجی گئی۔
نمبر چار کہ وزیراعظم نے پچھلی دونوں مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر نامزدگی کرنے سے پہلے نہ کسی کا انٹرویو لیا اور نہ ملاقات کی خواہش کی۔ وزیراعظم جنرل فیض کو بہرحال الیکشن کے دنوں سے جانتے تھے کیونکہ جنرل فیض بحیثیت ڈی جی سی الیکشن کے معاملات میں بھی ان کا بظاہر کچھ رول تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نمبر پانچ یہ کہ وزیراعظم کا تین لیفٹیننٹ جنرلز کو ملنا اور پھر کسی ایک کو منتخب اور دو کو مسترد کرنا پیشہ ورانہ طور پر ایک غیر معمولی اور منفی عمل ہوگا خاص طور پر جبکہ یہ دونوں ریجیکٹڈ شاید کور کو کمانڈ کریں۔
اس کے علاوہ عسکری ذرائع سے یہ بھی کہا جاتا ہے آرمی چیف نے وزیراعظم سے متعدد مرتبہ جنرل فیض کی ٹرانسفر کی بات کی۔ بہرحال وزیراعظم کی اس بات پر رضامندی کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔
وزیراعظم فل الحال جنرل فیض کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا شاید ایک منطقی فیصلہ نہیں ہے۔ خاص طور پر جبکہ اس فیصلے کے نتیجے میں فوج پر یقینا اس کا اثر ہوگا، اس کی اندرونی فیصلہ سازی کو یقینا نقصان پہنچے گا جس کا منفی اثر فوج کے ادارے پر آنے والے وقتوں میں بھی ہوگا۔
وزیراعظم جب وزیراعظم کے عہدے کی بالادستی کے لیے کوئی بھی قدم اٹھائیں سب ان کے ساتھ ہوں گے۔
گمشدہ لوگوں کے لیے، فوج میں جمہوری اقتدار اور احتساب آگے بڑھانے کے لیے لیکن جنرل فیض کو ہر قیمت پر عہدے پر برقرار رکھنے کا اصرار سمجھ سے باہر ہے۔