وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کی تقرری پر مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور نئی تقرری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’ایک بار پھر سول اور فوجی قیادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ملک کے استحکام، سالمیت اور ترقی کے لیے تمام ادارے متحد اور یکساں ہیں۔‘
تاہم انہوں نے اپنے ٹویٹ میں یہ واضح نہیں کیا کہ اس معاملے میں مشاورت کا عمل کب اور کس طرح مکمل ہوا ہے۔ آیا کہ اس معاملے میں گفتگو کے لیے ملاقات ہوئی ہے یا پھر فون پر رابطہ ہوا اور یہ کام کتنے عرصے کے دوران ہوا ہے۔
فواد چوہدری کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کے معاملے پر حکومت اور فوج کے درمیان بظاہر ڈیڈ لاک نظر آرہا تھا۔ ایک طرف پاکستانی فوج نے تعیناتی کا اعلامیہ جاری کر دیا تو دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔
وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان نئے DG ISI کی تقرری پر مشاورت کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور نئ تقرری کا پراسس شروع ہو چکا ہے، ایک بار پھر سول اور فوجی قیادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ملک کے استحکام، سالمیت اور ترقی کیلئے تمام ادارے متحد اور یکساں ہیں
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) October 13, 2021
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے چھ اکتوبر کو جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پاکستانی فوج میں اہم تبدیلیاں اور تقرریاں کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو 25 واں ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا تھا جبکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا تھا۔
اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور اور قومی اسمبلی میں چیف وہپ عامر ڈوگر نے گذشتہ روز کہا تھا کہ افغانستان کی صورت حال کے پیش نظر وزیراعظم لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
سما نیوز کے پروگرام ’ندیم ملک لائیو‘ میں منگل کی رات گفتگو کرتے ہوئے عامر ڈوگر نے کہا: ’وزیراعظم نے اس معاملے پر کابینہ کو اعتماد میں لیا اور ارکان کو بتایا کہ وہ فیض حمید کو چند ماہ کے لیے ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر برقرار رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں جب تک کہ افغانستان میں کوئی تصفیہ نہ ہو جائے۔‘
انہوں نے وزیراعظم کے حوالے سے کہا کہ ان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں۔
عامر ڈوگر نے بتایا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان پیر کی رات ایک طویل ملاقات ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ تین سے پانچ مزید نام متعلقہ قواعد و ضوابط کے مطابق بھیجے جائیں گے اور وزیراعظم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
ساتھ ہی انہوں نے اصرار کیا کہ یہ وزیر اعظم کی ذاتی ترجیح کا معاملہ ہے، لیکن ’اس میں طریقہ کار کی کمی کا معاملہ سامنے آسکتا ہے۔‘
وفاقی وزیر فواد چوہدری بھی کہہ چکے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا اور اتھارٹی وزیراعظم ہیں لیکن ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں سول اور ملٹری قیادت کے درمیان بہت آئیڈیل تعلقات ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا قانونی طریقہ کار کیا ہے؟
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے لیے قانونی طریقہ کار کیا ہے، جسے اختیار نہیں کیا گیا؟ ماضی میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کیسے ہوتی رہی ہے اور ماضی میں اس کا اعلامیہ کون جاری کرتا رہا ہے؟
ان تکنیکی سوالات کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی و دفاعی ماہرین سے رابطہ کیا اور ان کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
سینیئر وکیل خواجہ حارث اس بارے میں کہتے ہیں کہ رولز آف بزنس کے مطابق تو طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ سیکریٹری دفاع سمری تیار کر کے وزیراعظم آفس بھجواتے ہیں اور وہاں سے منظوری ہوتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ آئین کے مطابق ’تو یقیناً فائنل اختیار وزیراعظم کا ہی ہے لیکن اس میں آرمی چیف کی بطور سربراہ ادارہ مشاورت شامل ہوتی ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے طریقہ کار کو جاننے کے لیے وزارت قانون سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر رائے دینے سے معذرت کر لی۔
ایک سینیئر قانون دان نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے لیے یقینی طور پر نام تو آرمی چیف ہی دیتے ہیں اور یہی روایت رہی ہے، لیکن چونکہ آئی ایس آئی وزیراعظم کو رپورٹ کرتا ہے تو اس لیے اتھارٹی وزیراعظم کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عموماً یہی ہوتا آیا ہے کہ آرمی چیف وزیراعظم سے مشاورت کر کے نام وزرات دفاع کے ذریعے وزیراعظم آفس بھجواتے ہیں اور پھر نام کی منظوری ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’حالیہ معاملےمیں نام وزارت دفاع کے ذریعے نہیں آیا بلکہ آرمی چیف نے وزیراعظم سے ملاقات میں براہ راست نام والی سمری پیش کر دی اور اسی دوران پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اعلامیہ جاری کر دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم کو یہ تحفظات ہیں کہ منظوری سے پہلے ہی اعلامیہ جاری کیا گیا۔‘
ماضی میں ہونے والی تقرریوں کی کیا روایات رہی ہیں؟
سینیئر دفاعی صحافی متین حیدر کہتے ہیں کہ جب بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو ان کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے موقع پر تنازع کھڑا ہوا تھا جب حمید گل ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوئے جن کا بعد ازاں ملتان کور تبادلہ کر دیا گیا تھا اس پر بھی سول ملٹری تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔
’اس کے بعد بینظیر بھٹو نے ریٹائرڈ لیفٹینیٹ جنرل شمس الرحمن کلو کو ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا مگر فوج اور بینظیر کے مابین تناؤ برقرار رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی یہ معاملات چلتے رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف جب 1997 میں وزیراعظم تھے اس وقت نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز پر وزیراعظم اور اس وقت کے آرمی چیف کے درمیان تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔
’اس پر وزیراعظم نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جنرل جہانگیر کرامت سے کہا تھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں اور وہ مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد نواز شریف نے جنرل مشرف کو آرمی چیف تعینات کیا۔ لیکن سول ملٹری تناؤ برقرار رہا۔‘
متین حیدر کہتے ہیں کہ مئی 1999 میں کارگل تنازع کے بعد جنرل مشرف اور نواز شریف کے مابین بھی سرد مہری آگئی۔
’اکتوبر 1999 میں نواز شریف نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو ان کے غیر ملکی دورے سے واپسی کے سفر پر دوران پرواز ہٹا کر جنرل ضیاالدین خواجہ کو آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کیا تو جنرل مشرف نے مارشل لا لگا دیا اور حکومت کا تختہ الٹ دیا۔‘
’اسی طرح پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا گیا تھا اور نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا جس کی وجہ سے فوج میں سخت غصہ پایا گیا تاہم اس وقت کوئی برطرفی نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ اختیار تو واضح طور پر وزیراعظم کا ہی ہے اور عمومی طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا اعلامیہ وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہوتا رہا ہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں یہ اعلامیے آئی ایس پی آر نے ہی جاری کیے ہیں۔