افغانستان کی نسلی، لسانی اور قبائلی تقسیم پر مبنی انسانی اور غیرملکی امداد تقسیم کرنے کی ایک طویل اور تلخ تاریخ ہے۔
ایک وقت تھا جب اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو ستم ظریفی میں ’وردک فوڈ پروگرام‘ کہا جاتا تھا کیونکہ وردک (پشتون) قبیلے کے افراد نے اقوام متحدہ میں قدم جمائے تھے اور نسلی اور قبائلی تعلقات کی بنیاد پر خوراک تقسیم کی جاتی تھی۔ ورداک کے افراد نے بعض علاقوں یا لوگوں کو کھانے کی کم یا کوئی امداد نہیں دی تھی۔ ہمیں ایسی بات دوبارہ نہیں ہونے دینی چاہیے۔
ہر صوبے میں امداد کی تقسیم
یورپی کمیشن کے صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین ایک ارب ڈالر کا انسانی امدادی پیکج دے گا تاکہ افغان عوام اور پڑوسی ممالک کو پناہ گزینوں کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امریکہ سمیت جی 20 ممالک نے بھی امداد کا وعدہ کیا ہے۔
بین الاقوامی عطیہ دہندگان اس بات سے آگاہ ہیں کہ بڑے پیمانے پر انسانی امداد کے پروگراموں میں ہمیشہ چوری اور بدعنوانی کی گنجائش ہوتی ہے۔ لیکن ان عطیہ دہندگان کو بڑے اور زیادہ شیطانی طریقوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے جو انسانی امداد کی تقسیم کو متاثر کرتے ہیں جیسے کہ بعض قبائل یا لوگوں کے خلاف تعصب کی وجہ سے خوراک، خشک دودھ، پینے کا صاف پانی اور پناہ گاہ فراہم کرنے میں ناکامی۔
صوبوں میں امداد کی فی کس تقسیم
مندرجہ بالا جدولیں 1 اور 2 افغانستان میں ترقیاتی امداد کی تقسیم کو ظاہر کرتی ہیں۔ (میٹ والڈمین، ’افغانستان میں امداد کا اثر‘، (کابل، افغانوں کے لیے انسانی امداد اور ترقی کے لیے رابطہ دفتر، 2008) »(برطانوی پارلیمنٹ ، 2012.))
یہ تقسیم سابق صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کی دیرینہ پالیسیوں اور طریقوں کی عکاسی کرتی ہے، جس نے ترقیاتی امداد کا ایک بڑا حصہ مخصوص صوبوں کو دیا جبکہ کئی دیگر صوبوں کو ترقیاتی امداد کم کی۔ اس کا مقصد پشتون اکثریتی علاقوں کو فائدہ دینا تھا (جدول 1 اور 2 میں فہرست کے تمام 10 مقامات سوائے کابل کے) اور ساتھ ہی ساتھ دیگر صوبوں بالخصوص غیر پشتون علاقوں میں معاشی ترقی کو نقصان پہنچانا تھا۔
یہ نسل پرستانہ پالیسی حامد کرزئی کے دور میں شروع ہوئی اور اشرف غنی کے دور میں جاری رہی۔ مسلح باغیوں کے خلاف کچھ مبہم نظریات میں، یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں کو ’پرسکون‘ کرنے کے لیے شورش زدہ علاقوں میں ترقی کی شرح زیادہ ہونی چاہیے۔
کرزئی اور غنی کے لوگوں نے امریکی امدادی ایجنسی (یو ایس ایڈ)، اقوام متحدہ اور دیگر غیرملکی عطیہ دہندگان سے طالبان کے حامی علاقوں کے لیے فنڈنگ بڑھانے کا مطالبہ کیا اور ان اداروں نے ایسا ہی کیا۔
ہلمند نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اس رقم سے انہوں نے ہتھیار خریدے اور اپنے عسکریت پسندوں کی تنخواہیں ادا کیں۔ پشتون صوبوں میں اربوں ڈالر کے امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم دی گئی۔ یہ بہتر ہوتا اگر امریکی فوج نیپام میں سرمایہ کاری کرتی۔ یہ اس سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتا تھا)۔)
برطانوی خبتر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یو ایس ایڈ اب تک سب سے بڑا عطیہ دینے والا ہے۔۔۔ اگر ہلمند کوئی ملک ہوتا تو یہ دنیا میں اس ادارے کی امداد پانے والا پانچوں بڑا ملک ہوتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی عطیہ دہندگان کو کرزئی یا غنی حکومتوں کے سابق عہدیداروں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
کچھ علاقوں میں ترقیاتی امداد میں کمی کے علاوہ، شمالی افغانستان کے پسماندہ لوگوں کے لیے قحط کی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر 2008 اور 2009 میں جب خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی ناکامی نے قحط والی صورت حال پیدا کی، جس میں سرد موسم نے تاجک، ازبک اور ہزارہ لوگوں کی تکلیف میں اضافہ کیا۔ شمال کے لوگوں کو مدد مانگنے کے باوجود کرزئی حکومت سے کوئی مدد نہیں ملی۔ جیسا کہ ایک شمالی شخص نے ریڈ کراس کو بتایا: ’حکومت نے ہماری بالکل مدد نہیں کی۔ انہوں نے ہم سے کھانے کا وعدہ کیا لیکن کوئی خوراک نہیں ملی۔‘
اس وجہ سے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی اور افغان ہلال احمر شمالی صوبوں میں خوراک تقسیم کرنے پر مجبور ہوئیں۔ (جوناتھن برچ، ’شمال میں افغان جنگ بھوک کے ساتھ ہے، طالبان کے ساتھ نہیں‘ روئٹرز، 23 فروری ، 2009)
بین الاقوامی عطیہ دہندگان کو انسانی امداد کی تقسیم کی نگرانی اور انتظام کے لیے افغانستان میں اپنی موجودگی پر اصرار کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر، طالبان، اشرفیہ اور کرزئی حکومتوں کے سابق اراکین اپنے پرانے طریقوں پر واپس آجائیں گے: ہزارہ، تاجک اور ازبک کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی نسلی اور لسانی برادریوں اور قبائل کی مدد کریں گے۔ وان ڈیر لیین نے کہا: ’یہ یورپی یونین کے پالیسی مقاصد کے خلاف ہے۔ ہم افغانستان میں ایک بڑے انسانی اور معاشی المیے سے بچنے کی خاطر سب کچھ کلر رہے ہیں۔‘
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔
یہ مضمون اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی میں شائع ہوچکا ہے۔