امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گذشتہ ہفتے کے اختتام پر قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دوران افغانستان کے لیے انسانی امداد کے مسئلے پر ’نتیجہ خیز بات چیت‘ ہوئی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہفتے اور اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہونے والے پہلی دو بدو ملاقات کے دوران طالبان نمائندوں اور امریکی عہدیداروں، جن میں انٹیلی جنس اور امدادی ایجنسیز کے حکام شامل تھے، نے افغانستان کو انسانی امداد کی رسائی پر تبادلہ خیال کیا۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ ان مذاکرات میں سکیورٹی اور دہشت گردی کے خدشات، غیرملکی شہریوں اور افغان اتحادیوں کو ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق پر بھی بات چیت کی گئی۔
واشنگٹن نے طالبان حکومت پر بارہا زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے خواتین اور لڑکیوں اور انسانی حقوق کا احترام کریں۔
پرائس نے کہا: ’امریکی وفد نے واضح کیا، جیسا کہ ہم مستقل طور پر کرتے ہیں، کہ طالبان کو ان الفاظ پر نہیں بلکہ صرف ان کے عملی اقدامات کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔‘
پرائس نے مزید بتایا کہ طالبان نمائندوں کی یورپی یونین کے عہدیداروں اور امریکی حکام سے ایک علیحدہ ملاقات منگل کو ہوئی، جس کے دوران انہیں یہ پیغام دیا گیا کہ دنیا افغان شہریوں کی انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے پرعزم ہے، لیکن ان کے ملک کو دہشت گردی کا ٹھکانہ نہیں بننا چاہیے۔
رواں برس اگست میں طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد واشنگٹن نے افغانستان کی امداد منجمد کر دی تھی، تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی غیرسرکاری گروہوں کے ذریعے امداد فراہم کر رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے انسانی بحران کو کم کرنے کے لیے امریکہ پر افغان حکومت کے منجمد غیر ملکی اثاثے بحال کرنے کے مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔
جی ٹوئنٹی انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے پرعزم، امداد کا اعلان
دوسری جانب دنیا کے بڑے ممالک کے بلاک ’جی ٹوئنٹی‘ کے رہنماؤں نے منگل کو افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
یورپی یونین نے افغانستان میں انسانی امداد کے لیے ایک ارب یورو امدادی پیکج کا وعدہ کیا جب کہ میزبان ملک اٹلی نے طالبان سے رابطے برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین بلاک کی سربراہ ارسولا وان ڈیر لیین کی جان سے جی ٹوئنٹی اجلاس کے بعد جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا کہ باقی رقم افغانستان کے پڑوسی ممالک کو دی جائے گی، جو طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پناہ تلاش کرنے والے افغان باشندوں کو داخلے کی اجازت دے رہے ہیں۔
ان کے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یورپی یونین کے فنڈز افغانوں کے لیے ’براہ راست مدد‘ ہیں اور یہ وہاں کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے فراہم کیے جائیں گے طالبان کی عبوری حکومت کو نہیں دیے جائیں گے جسے برسلز تسلیم نہیں کرتا۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم افغان حکام کے ساتھ بشمول انسانی حقوق کے احترام کے کسی بھی قسم کے کام کرنے کے لیے اپنی شرائط کے بارے میں واضح ہیں۔ انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹس واضح ہیں، لیکن افغان عوام کو طالبان کے اقدامات کی قیمت ادا نہیں کرنی چاہیے۔‘
یورپی یونین نے زور دیا کہ امدادی رقم طالبان کی عبوری حکومت کی بجائے گراؤنڈ پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کو فراہم کی جائے گی۔
جی ٹوئنٹی کے ورچوئل اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن، ترکی کے رجب طیب اردوغان اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت عالمی رہنماؤں نے طالبان کی طرف سے بزور طاقت اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والے معاشی اور انسانی بحران پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اجلاس میں یورپی یونین نے ایک ارب یورو امداد کا وعدہ کیا، جس میں فوری انسانی امداد اور افغانستان کے ان پڑوسی ممالک کی مدد بھی شامل ہے جو جنگ زدہ ملک کے پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔
اگرچہ چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے بذات خود اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن اطالوی وزیراعظم نے اصرار کیا کہ گروپ کے تمام ممالک افغانستان کی مدد کی ضرورت پر متفق ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’چار کروڑ افغان عوام غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں جہاں بجلی کی سپلائی معطل ہے اور کوئی مالیاتی نظام موجود نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی برادری کا ہدف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل پیر کو اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گتریس نے کہا تھا کہ ’ہمیں راستہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ افغان معیشت دوبارہ سے سانس لے سکے۔ ایسا بین الاقوامی قوانین یا اصولوں کو نظرانداز کیے بغیر کیا جانا چاہیے۔‘
انتونیو گتریس نے کہا تھا کہ ’میں دنیا سے درخواست کرتا ہوں کہ ایکشن لے اور تباہی سے بچنے کے لیے افغان معیشت میں کیش انجیکٹ کرے۔ میں عالمی برادری سے طالبان یا موجودہ حکام کو پیسہ دینے کے لیے نہیں کہہ رہا۔‘
امریکہ کے جانے کے بعد سے افغانستان کی معیشت ’تباہی‘ کے دہانے پر ہے کیونکہ بین الاقوامی امداد بند ہے جس کے باعث اشیائے خورد ونوش بڑھ رہی ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے تو انکار کیا ہے لیکن ملک کو انسانی بنیادوں پر امداد دینے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔