حال ہی میں 37 سالہ عرب علی شاہ قطر میں اچھی خاصی ملازمت چھوڑ کر پاکستان کاروبار شروع کرنے کے لیے منتقل ہوئے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ عرب علی شاہ نے پاکستان میں ایک آئی ٹی ادارہ، ایک گیسٹ ہاؤس، رینٹ اے کار اور جنرل سٹور کا کاروبار شروع کیا ہے، لیکن ان تمام پراجیکٹس میں انہوں نے جدت پسندی کو ضرور مد نظر رکھا۔
وہ نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کامیاب رہے بلکہ مستقبل سے متعلق زیادہ پرامید ہیں۔
عرب علی نے آئی ٹی میں بی ایس کے بعد قطر کی وزارتِ خزانہ میں ملازمت اختیار کی اورکچھ عرصہ بعد اسلامک انٹرنشنل یونیورسٹی سے فقہ میں ایم ایس کی ڈگری حاصل کی، لیکن حال ہی میں انہوں نے کاروبار کا پیشہ اختیار کیا اور آج کل عربر کنسورشیم کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔
ملازمت چھوڑنا یا پھر سرمایہ کاری کرنا ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے عرب علی شاہ کے حوالے سے تو انوکھا لگتا ہی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ کہ وہ باہر سے پاکستان سرمایہ لے کر آ گئے حالانکہ یہاں تو لوگ ملک سے سرمایہ باہر جانے کی خبریں زیادہ سنتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے عرب علی سے مختصر بات چیت کی جس کا احوال کچھ یوں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ کیا باہر آپ کا سرمایہ زیادہ محفوظ نہیں تھا اور وہاں مواقع بھی زیادہ تھے؟
عرب علی: دیکھیے اُن لوگوں کو بہتر پتہ ہے جو اپنے ملک سے باہر رہتے ہیں کہ دوسرا کوئی بھی ملک آپ کے لیے مکمل طور پر اس طرح اپنا نہیں ہو سکتا جس طرح پاکستان۔
دیار غیر، بہر حال دیار غیر ہوتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ کسی کو بھی محب وطن بننے کے لیے کچھ عرصہ باہر گزارنا چاہیے۔
یہاں آنے کی پہلی وجہ تو یہ کہ یہ ہمارا اپنا ملک ہے اور دوسری یہ کہ دوسرے ملک میں کام کرنے سے ہم اس معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم اپنے ملک کو ترقی دیں۔
یہ دو احساسات تھے جنہوں نے مجھے ملازمت چھوڑنے اور اپنے ملک میں کاروبار شروع کرنے پر اکسایا۔ اس مقصد کے لیے میں نے ایک سال تک صورت حال کا جائزہ لیا، مجھے امید نظر آرہی ہے۔
ملک میں بے روز گاری عروج پر ہے اور شاید چھوٹی یا بڑی سطح پر سرمایہ کاری سے ہی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ترقی یافتہ یا امیر ممالک کی نسبت پاکستان میں کاروبار زیادہ آسانی سے کامیاب ہوسکتا ہے کیونکہ لوگوں کو سہولتیں چاہییں اور کئی جگہوں پر تو ان کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں اگر چہ وہ پیسہ بھی دینا چاہتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: اپنے کاروبار سے متعلق بتائیں۔ آپ کے لیے مہنگائی کے اس دور میں نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کتنا مشکل تھا؟
عرب علی: میں نے فی الحال گراسری، رینٹ اے کار اور سافٹ ویئر بنانے کے سیٹ اپ بنائے ہیں، جو ایک دوسرے کو سپورٹ تو کرتے ہیں لیکن ہر سیٹ اپ اپنی جداگانہ فعالیت برقرار رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ ہم ایک گیسٹ ہاؤس بھی چلا رہے ہیں، لیکن گیسٹ ہاؤس اصل میں ہمارے ایک دوسرے بڑے پراجیکٹ سیر و سیاحت سے متعلق ہے، جو میں بعد میں تفصیل سے بتاؤں گا۔
سافٹ ویئر میں زیادہ تر کام باہر ہی سے آتا ہے۔ جہاں تک میرے فیصلے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے ایک متوسط طبقے کے فرد کے لیے ایسے فیصلے آسان نہیں ہوتے اور اس میں رکاوٹیں بھی حائل ہوتی ہیں۔ بہرحال توکل علی اللہ سے فیصلے آسان ہوجاتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: یہ سارے کاروبار تو پہلے سے مارکیٹ میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، آپ کیا مختلف دے رہے ہیں؟
عرب علی: پاکستان میں اکثر لوگ ایک روایتی طریقے سے کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں اور اس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بہت کم عمل دخل ہوتا ہے۔ میرا طریقہ کار یہ ہے کہ میں سب سے پہلے ڈیجیٹل تخلیق کے ذریعے ایک خیال یا آیئڈیے کو پروموٹ کر کے ڈیجیٹلائز کردیتا ہوں اور ٹیکنا لوجی کی مدد سے میں ایک پالیسی لاگو کر رہا ہوں جسے اسی، بیس یا 20/80 اصول کہا جا سکتا ہے۔
آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ کہ گاہک جب 20 فیصد ان پٹ دیتا ہے یعنی آرڈر بک کروانا ہو یا کوئی چیز آن لائن منگوانی ہو تو پھر ہمارا سسٹم یا نظام و انتظام اس کو 80 فیصد آؤٹ پٹ دے دیتا ہے۔
مثلا گراسری کا آرڈرتفصیلات کے ساتھ ہمیں آجاتا ہے اور پھر ہمارا عملہ وہ ڈیمانڈ پوری کر دیتا ہے اور گاڑی میں سامان دہلیز پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ اصول رینٹ اے کار یا آئی ٹی فرمز سمیت تمام کاروباروں پر لاگو ہوتا ہے جو ہم اپنے خصوصی ایپس کی مدد سے چلاتے ہیں۔
اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس غیر ملکی صارف زیادہ آ رہے ہیں اور پاکستان کے اندر بھی کسی گاہک کو مشکل پیش نہیں آتی۔
ہم معیار مہیا کرنے میں بہت احتیاط برتتے ہیں، پس ٹیکنالوجی اور احتیاط دونوں سے ہمارے کاروبار پر مثبت اثر پڑ رہا ہے۔ ہماری مارکیٹ دن بہ دن بہتر ہوتی جا رہی ہے۔
انڈ پینڈنٹ اردو: آپ کہہ رہے تھے کہ پاکستان آنے سے پہلے کچھ جائزہ لے رہے تھے، کیا جائزہ لیا؟
عرب علی: مجھے جو نظر آ رہا تھا، وہ یہ تھا کہ کاروبار تو لوگ چلا رہے تھے لیکن اس میں معیار اور مقدار کا تناسب بہتر نہیں تھا۔ ہم نے معیاری پراڈکٹس اور خدمات کے لیے پہلے لوگوں کو بھرتی کیا اور کوشش کی کہ ہمارا سٹاف تعلیم یافتہ ہو، پھر ان کو تربیت مہیا کی۔
گیسٹ ہاؤس، رینٹ اے کار، آئی ٹی اور گراسری میں جو لوگ میرے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کو پیشہ ورانہ خطوط پر تربیت دی گئی۔ پیشہ وارانہ امور میں تربیت کے علاوہ دیانت داری کے لیے ان کو حساس کیا جو کسی بھی کام کی کامیابی کی بنیاد ہوتی ہے۔
اس ملک میں کاروبار میں ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا استعمال کم ہے اور اسی وجہ سے مقابلے کے اس دور میں کئی کاروباروں کو نقصان اٹھانا پڑا، میں نے آئی ٹی کے استعمال کو اپنے لیے ناگزیر بنا لیا۔
انڈپینڈنٹ اردو: آئی ٹی کیوں کسی بھی کاروبار کے لیے ناگزیر ہے؟
عرب علی: ایک تحقیق کے مطابق زراعت، صنعت اور بزنس میں کوئی 4500 سرگرمیاں ہیں۔ اس میں جدت پسندی انتہائی اہم ہے اور یہ آئی ٹی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
یہی وجہ تھی کہ ہم نے آئی ٹی کا راستہ اپنایا جو سالوں کا کام منٹوں میں کر دے۔ دنیا میں انوویشن کا انقلاب ہی نہ آتا اگر آئی ٹی نہ ہوتی۔
اس کے ذریعے ہم ملٹی-یونی کو یونی- ملٹی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ مثلاً کئی مریض پاکستان میں ایک خاص ہسپتال کا رخ کرتے ہیں، لیکن باقی دنیا میں یوں بھی ہوتا ہے کہ علاج کی سہولت آپ کی دہلیز پر آجائے۔
میں قطر میں تھا وہاں یہ ہو رہا ہے، کئی یورپی ممالک میں بھی علاج معالجے کےلیے یہی سہولت استعمال ہو رہی ہے۔ موبائل ہاسپٹل یا ایمبولینس گاڑیوں کے ذریعے معالج سمیت تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔
یہ بالکل ایک ایسی ہی ایپ کے ذریعے کام کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں آج کل کریم یا اوبر خدمات فراہم کر رہے ہیں اور اس قسم کی سہولیات میرے مستقبل کے منصوبے میں شامل ہیں۔
اس حوالے سے ایک ایپ پر ہم نے کام بھی شروع کیا ہوا ہے لیکن اس کو عملی شکل دینے کے لیے ہمیں سرمایہ کار چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ نے ذکر کیا تھا کہ اس طرح آپ روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آئی ٹی کے ہوتے ہوئے آپ کے کاروبار میں روزگار کس طرح بڑھے گا، ایک عام تاثر یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانی وسائل کا استعمال کم ہو جاتا ہے۔
عرب علی: یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن ہمیں ایک اور پہلو پر بھی توجہ دینی چاہییے اور وہ یہ کہ ٹیکنالوجی سے کاروبار میں وسعت آتی ہے اور وسعت سے طلب یا رسد میں اضافہ ہو تا ہے۔
اس وقت میرے پاس 40 کے قریب لوگ کام کررہے ہیں، جن میں سے کوئی نو لڑکے گراسری کا کاروبار دیکھ رہے ہیں۔ عربر کے نام سے قائم یہ گراسری کا کاروبار آن لائن آرڈر کے ذریعے گاڑی سے گاہک تک سامان پہنچاتا ہے۔
جوں جوں کاروبار پھیلتا ہے تو مزید ڈرائیورز اور گاڑیاں درکار ہوتی ہیں۔
میرا ارادہ ہے کہ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں عربر کی اور شاپس کھولے جائیں تاکہ ملک بھر میں اس کاروبار کے سلسلے کو وسعت دی جائے یا دکانوں کا چین قائم کیا جاسکے۔ ہمارے جائزے کے مطابق اس سے کوئی دو لاکھ کے قریب روز گار کے مواقع پیدا ہو سکیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو: اس وقت کون سے دیگر پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے؟
عرب علی: جس طرح میں نے پہلے کہا کہ آئی ٹی فرم، رینٹ اے کار، گیسٹ ہاؤس اور عربر گراسری تو فعال ہو چکے ہیں، جس سے آمدن آنا شروع ہو گئی ہے اور کچھ لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ہاتھ آ گئے ہیں۔
صحت کے علاوہ مجھے ایک اور سیکٹر میں بھی مواقع نظر آ رہے ہیں اور وہ ہے سیر و سیاحت، چونکہ حکومت بھی اس سیکٹر کو کافی توجہ دینے لگی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے بیانات سے بھی ایسا لگ رہا ہے۔
دوسری جانب بیرونی ممالک سے بھی بہت سارے لوگ پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن سہولیات کم ہونے کی وجہ سے اس ملک میں دیگر ممالک کی طرح رش نہیں رہتا۔
میں اپنی آئی ٹی فرم کے ذریعے ایک پروگرام/ سافٹ ویئر تشکیل دے رہا ہوں جو دور دراز کے سیاحتی مقامات پر موبائل ہوٹلز، ٹائلٹس، یا مسجد یا پھر پانی کی سپلائی ممکن بنا دے گا اور میرے خیال میں مستقبل کے پاکستان میں جہاں امن پہلے سے قائم ہورہا ہے، اس سے زیادہ منافع بخش کاروبار کوئی اور نہیں ہوگا۔ اس سے پسماندہ علاقوں میں روز گار کے مواقع بھی بڑھ جائیں گے۔