یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
بات کا بدل تو کچھ بھی نہیں، نہ اشارے کنائے نہ ہی خاموشی کی زبان۔
بات شروع ہوتی ہے تبھی دور تلک جاتی ہے اور کھلتی ہے، بات سے بات نکلتی ہے یعنی بات چلتی رہتی ہے۔ لیکن اگر سرے سے بات ہی نہ ہو تو بدگمانیوں کو خاموشی کا موسم راس آتا ہے۔ جب بات ہی نہیں ہوتی تو شک کی نفی کون کرے، کون ہو جو وسوسوں کی جڑیں کاٹے۔
بات ہوتی رہے تو فریقین کو حرف آخر کہنے کا موقع نہیں ملتا، یوں مذاکرات کے در وا رہتے ہیں۔
بڑے بوڑھے بات کی اہمیت جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں گھر، خاندان، برادری کے جھگڑے بات کرکے نمٹاؤ، جرگہ بٹھاؤ، فریقین کو اپنی سی کہہ لینے دو، دل کی بھڑاس نکلنے دو، شکوے ہوں گے، الزام لگائیں گے تو لگانے دو، نفرت کا اظہار بھی ہوگا تو ہو لینے دو کیونکہ فریقین میں بات اگر صدق دل سے کی جائے تو نتیجہ صرف صلح ہوتا ہے۔
گھر برادری ہی کیا تاریخ شاہد ہے کہ ملکوں کی جنگوں کو بھی باتوں نے ہی سمیٹا ہے۔ دنیا کا امن مذاکرات، معاہدوں، پس پردہ رابطوں کا محتاج ہے، ورنہ بات کے دور نہیں اسلحہ گولہ بارود چلے تو نتیجہ آگ و خون کے سوا کچھ نہیں۔
اب تک اس تحریر نے آپ کو مذاکرات کی میز پر دھکیلنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر اس میز پر بیٹھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سامنے کون بیٹھا ہے۔
یہ دنیا خیر اور شر کی طاقتوں کا مجموعہ ہے، ان طاقتوں میں کھینچا تانی ازل سے جاری ہے۔ خیر کی تو خیر ہے مگر شر کو باتوں میں لگا کر اخلاص کی راہ پر لایا نہیں جاسکتا، فتنہ اور فساد اگر باتوں مذاکراتوں سے سنبھل پاتا تو سزا و جزا کی الجھن رکھی نہ جاتی۔
بڑے پیمانے پر شر اور فساد فی الارض کسی ایک گروہ نہیں انسانیت سے دشمنی ہے، ایسا شری، فسادی، قاتل گروہ جو انسانیت کے بنیادی معیار کو نہ مانے اسے صرف ریاست کا فریق نہیں مانا جاسکتا۔
مذاکرات میں تو فریق بیٹھا کرتے ہیں، تو کیا ہم جرائم پیشہ، بھتہ خوروں کو ریاست کے سامنے فریق مان لیں؟ کیا غیرمسلح، بے گناہ کمسنوں کے قاتلوں کو فریق مان لیں؟ تو کیا جیلوں میں بیٹھا ہر مجرم ریاست کے سامنے مذاکرات کا فریق ہوسکتا ہے؟
بات ہے سادہ سی، اگر ذہن شدت پسند خیالات، پرتشدد رجحانات سے پراگندہ ہو جائے تو اس کا علاج بات ہے، ایسے جذبات کو مذاکرات سے نکاسی دی جاتی ہے۔ باغی سوچوں کو مرکزی دھارے میں لایا جاتا ہے، بگڑے دماغوں کی اصلاح کی جاتی ہے، گمراہ کو راستہ دکھایا جاتا ہے۔
لیکن اگر کوئی قتل عام کرے اور معصوموں کے سروں کا پہاڑ بنا کر اس پر اکڑ کر کھڑا ہو جائے، اس کے منہ سے بے بسوں کاخون ٹپک رہا ہو، اس نے ماؤں کے کلیجوں کو اپنی انگلیوں میں جکڑ رکھا ہو اور وہ مقتولین کی گنتی کو فخر سے اپنی فتح کہے تو ایسے کی اصلاح بھلا کون سی بات ہو سکتی ہے؟ ایسے جنونی قاتل کو اگر مذاکرات کی میز پر بٹھا بھی دیں تو وہ کون سی پیاری بات کہی جائے کہ وہ قاتل توبہ کرلیں اور بےگناہ مقتولین اپنے پیاروں سے واپس آن ملیں؟
شدت پسندی اور دہشت گردی دو مختلف تصورات ہیں۔ شدت پسندی کا علاج مذاکرات سے بھی نکالا جاتا ہے اور ایسے اشخاص یا تنظیموں کی دوبارہ واپسی کی صورت بھی نکالی جاتی ہے مگر دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی اور سنگین جرائم کی مرتکب تنظیموں کو واپسی کا راستہ نہیں دیا جاتا۔ وہ ہاتھ جو بے گناہوں کے خون سے تر ہوں وہ کاٹے جاتے ہیں ان سے ہاتھ نہیں ملایا جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ریاست پاکستان کے مذاکرات پر جسٹس قاضی امین نے درست ہی کہا کہ کیا ہم ایک بار پھر سرنڈر ڈاکومنٹ پر دستخط کرنے جا رہے ہیں؟ کیا مجرمان کو سزا کی بجائے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان تو بنا ہی اس مقصد کے لیے تھا کہ ایسے شری عناصر کو مزا چکھا کر نئی نسل کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔ مگر کب کس نے اسے نو ایکشن پلان اور اب مذاکراتی پلان میں بدلا؟
سانحہ اے پی ایس کے متاثرہ والدین کی دہائی سنیں، سانحے کے بعد جو مائیں دامن پھیلا کر قاتلوں کو بدعا دیتی تھیں آج وہ سپریم کورٹ میں قاتلوں، قاتلوں کے سہولت کاروں، غفلت برتنے والوں، بڑی کرسی والوں اور اپنے پیاروں کو بھول جانے والوں کے خلاف انصاف چاہتی ہیں۔
اس فہرست میں وزیراعظم عمران خان کا نام تو کہیں بھی شامل نہیں مگر انہوں نے فوج کے سابق فوجی سربراہ راحیل شریف اور سابق کور کمانڈر پشاور سمیت متعدد اعلیٰ حکام کے نام بھی گنوائے ہیں۔
ان بچوں کے قاتلوں سے مذاکرات کی خبر سے والدین دل گرفتہ نہیں، مایوس ہیں اور وہ جو سانحہ آرمی پبلک سکول مقدمے میں وزیراعظم کی پیشی کو ڈراما قرار دے رہے ہیں، وہ مایوس نہیں حقیقت پسند ہیں۔
آج ہمیں جتنی مذاکرات کی ضرورت ہے کاش انہیں کرنا بھی اتنا ہی آسان ہوتا کہ فریق بات کرتے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے۔
کاش کہ مذاکرات کی میز پر ہم نے جنونی قاتل نہیں واقعی کوئی فریق بٹھایا ہوتا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔