یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
’یہ جو چند ٹھیکدار کشمیر دکان کے نام پر پوری دنیا میں کاروبار کرتے چلے آ رہے ہیں کیا انہیں اس بات کا واقعی علم ہے کہ یہ قوم اس وقت کس مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے۔ کیا انہیں یہ پیغام دینا ضروری نہیں کہ عوام کا بڑا طبقہ آپ کے کاروباری ذہن کے بارے میں کافی عرصہ پہلے بیدار ہوچکا ہے۔‘
یہ خیالات سوشل میڈیا کی ایک سپیس میں بعض ایسے کشمیریوں کے تھے جن کے بارے میں ایک اور سپیس میں یہ کہا جارہا تھا کہ ’بی جے پی کی تنخواہ پر کام کرنے والے ان چند افراد کو کیا کشمیر بیچنے کا نیا کنٹریکٹ ملا ہے؟‘
ایسی درجنوں سپیسز میں کشمیر مسئلے کی مزید سنگینی اور پیچیدگیوں کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ان کو سن کر قضیے کے فریق بھارت اور پاکستان آسانی سے اپنی ذمہ داریوں سے مبرا ہوتے ہیں جبکہ کٹہرے میں صرف وہ کشمیری رہ جاتے ہیں جو خود ایک دوسرے پر الزام تراشی اور نئے نظریات ایجاد کر کے اس قوم کی بیخ کنی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ کسے معلوم نہیں کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں مگر جو وہ چاہتے ہیں اس کو یہی کچھ لوگ مختلف نظریات کے لبادے میں چھپا کر تحلیل کرتے آ رہے ہیں تاکہ الجھاو اور انتشار قائم و دائم رہے۔
کشمیری قوم اس وقت زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہی ہے، اسے ذہنی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے کی ایسی پالیسی اپنائی جا رہی ہے کہ وہ کوئی راستہ منتخب کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھے اور نہ ایسا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
آزادی پسند یا مرکزی دھارے کی قیادت، دونوں سیاسی منظرنامے سے غائب کر دی گئی ہے۔ حکومت نے آزادی پسندوں کو جیلوں میں بند کر رکھا ہے یا وہ ابتر حالت میں انتقال کر رہے ہیں۔ جو چند رہنما بچے ہیں وہ بیشتر کیسوں میں الجھائے گئے ہیں کہ انہیں عدالتوں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔
مرکزی دھارے کی جماعتیں آج کل کچھ کچھ نظر آنے لگی ہیں۔ انہوں نے سات دہائیوں تک بھارتی پالیسیوں کی دل و جان سے آبیاری کی، ہندوستانی آئین کا بھرم رکھنے کے لیے ہی سہی، کاش انہوں نے شہری حقوق دینے یاتحفظ فراہم کرنے میں عوام کے ووٹوں کا حق ادا کیا ہوتا۔
اگر ایک جماعت کے دور میں 120 نوجوانوں اور بچوں کو ہلاک کرنے کا ایک ریکارڈ ہے تو دوسری جماعت نے ریکارڈ توڑنے کے لیے دس ہزار سے زائد افراد کو پیلٹ سے ان کی بینائی چھین لی اور سو افراد کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ قومی پارٹی کانگریس نے آبادی کے تناسب کو کم کرنے کی پہل 2008 میں شروع کی تھی جب امرناتھ شراین بورڈ کو آٹھ سو کنال اراضی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کو اب بی جے پی سیراب کرنے لگی ہے۔
مگر بھارت کی حکومت نے ان پر بھی بھروسہ نہیں کیا۔
سابق وزرا اعلی یا ان پارٹیوں سے جڑے بیشتر سیاست دانوں کو کافی دیر تک سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ اتنا ہونے کے باوجود بھی یہ مقامی جماعتیں اس وقت انتخابات کے انتظار میں ہیں۔
ایک سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ ’جموں و کشمیر سن 1931 میں واپس پہنچ گیا ہے جب مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں انتظامی امور، سکیورٹی کے پہرے یا روزمرہ کے معاملات پر غیر کشمیری مسلم فیصلہ کرنے کے مجاز ہوا کرتے تھے۔‘
سامراجی طاقت نے اس وقت گلینسی کمیشن قائم کر کے کشمیریوں کے حقوق پر شب خون مارنے کی شکایات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن بھارتی کی موجودہ حکومت سے اب یہ مطالبہ کون کرے؟
انسانی حقوق کے کارکن میر عنایت کے بقول ’ہندوستان نے 1947 میں جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کا منصوبہ تو روبہ عمل لایا لیکن خطے کے عوام کو شہریوں کی بجائے غلاموں کا درجہ دیا۔‘
1931 اور آج کے دور میں صرف اتنا فرق ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کھل کر غلاموں سے جبری مشقت کرواتے تھے جبکہ موجودہ حکومت جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر غلاموں کا قافیہ تنگ کر رہی ہے۔ اس پالیسی میں کانگریس اور بی جے پی میں انیس بیس کا فرق ہے کیونکہ کشمیر بھارت کی ہر بڑی یا چھوٹی پارٹی کا قومی مسئلہ ہے جس پر وہ متحد اور متفق ہیں۔
افسوس کہ کشمیری مسلمان آج بھی منقسم ہے اور بعض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف بھی۔ تاہم کشمیری ہندو، سکھ یا دوسری برادریاں بھارتی پرچم تلے منظم اور متحد ہیں۔
کشمیریوں کی منقسم آوازوں اور مختلف نظریات نے کشمیر کو حل کرنے کی بجائے مزید سنگین بنا دیا ہے اور کسی ایک نکتے پر اتفاق کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
چند برس قبل یورپی پارلیمان کے ایک اجلاس میں کشمیر کانفرنس کے دوران بعض اراکین نے بھی کشمیری مندوبین کے مختلف نظریات کے پیش نظر یہی مشورہ دیا تھا کہ ’وطن واپس جا کر پہلے آپس میں ممکنہ حل پر بات کریں۔‘
ہمارا ایک اور سنگین مسئلہ ہے کہ ہر کوئی خود کو لیڈر سمجھتا ہے۔
نوے کی دہائی میں مسلح تحریک کے آغاز کے بعد بعض جماعتیں ایسی بھی تھیں جن میں ایک فرد کے سوا کوئی نہیں تھا۔ حریت کانفرنس میں شامل بعض جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کا صرف نام ہے کام کوئی نہیں جانتا۔
سیاست دانوں کی یہ پالیسی حسب روایت قائم ہے کہ پارٹی سربراہ کا تاج گھر کے اندر ہی رہے۔ کئی تاج موجود ہیں جن کو پہننے کے لیے سرحد کے آر پار ان مکانوں میں سروں کی تلاش جاری ہے۔
سیاسی نظریات کا ہونا غلط نہیں اور سیاسی تنازعات میں اکثر یہ معاملات ہوتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہم خوش فہمی میں خود کو ارسطو، اپنی بات پتھر کی لکیر اور دوسرے پر اپنی رائے مسلط کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
قومی دھارے سے منسلک طبقہ بھارت کے ساتھ الحاق کو حتمی مانتا ہے مگر پاکستان سے بات چیت کرنے پر زور دیتا آ رہا ہے۔ کوئی مائی کا لال ان جماعتوں سے نہیں پوچھتا کہ پاکستان سے پھر کس نکتے پر بات کرنی ہے؟
ان جماعتوں نے ایک قلیل آبادی کو اسی جھانسے میں رکھ کر آج تک نسل در نسل حکومت کی ہے۔ بی جے پی یا کانگریس کے ساتھ اتحاد کر کے بھی یہ انتخابات میں پاکستان کو خوب بیچتے ہیں اور ووٹر اس چکمے میں بار بار آ جاتا ہے۔
ایک اور طبقہ کٹر پاکستان نواز ہیں۔ اس کا نعرہ ہے کہ پاکستان سے رشتہ کیا لا الا اللہ لا۔ مسلح تحریک کے امیر کارواں تو بھارت پاکستان سے مکمل آزادی کا نعرہ لے کر اٹھے تھے لیکن لندن میں ایک تھنک ٹینک سے وابستہ سیاسی مبصر رابرٹ ہاؤڈن کہتے ہیں کہ ’پاکستان نوازوں نے مسلح تحریک میں شامل ہو کر اسے مضبوط تو کر دیا تھا البتہ اس کو مذہبی رنگ میں نہلا کر عالمی سطح پر کافی نقصان پہنچایا۔‘
بھارت کو عالمی سطح پر اس کو ’اسلامی تحریک‘ قرار دینے میں آسانی پیدا ہوگئی اور پاکستان کو ’دہشت گردی‘ کا اڈہ بتانے میں عالمی برادری نے ذرا بھی تامل نہیں کیا۔
بھارت کو اس بات کا علم ہے کہ ہر کشمیری کے دل میں پاکستان کے لیے ایک نرم گوشہ ہے وہ چاہیے پاکستان سے الحاق کا حامی ہو یا نہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہندوستان نواز سیاسی کارکن بھی پاکستان کا میچ جیتنے پر پٹاخے چھوڑتے ہیں یا پاکستان مخالف کسی بھی کارروائی سے بےچینی محسوس کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ کبھی نہیں لینا چاہیے کہ وہ تمام الحاق پاکستان کے حامی ہیں۔
چند دہائیوں قبل بھارت کے ایک میگزین نے کشمیر میں ایک سروے کے دوران لکھا تھا کہ جموں و کشمیر کا ایک بڑا طبقہ مکمل آزادی کا خواہاں ہے جو دونوں ملکوں سے الگ اپنا وطن چاہتا ہے۔
ہلاکتوں، سختیوں اور تشدد کے باوجود جذبہ آزادی اب تک کشمیر میں زندہ ہے لیکن بیرون ملک آباد بعض کشمیری، قیادت کا تاج حاصل کرنے کے چکر میں آزادی پسندوں کو ایک دوسرے ملکوں کے ایجنٹ جیسے خطابات سے اکثر نوازتے رہتے ہیں۔
آج کل ایک اور طبقہ کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر نمودار ہوچکا ہے یا سرکار کی آشیرباد سے وجود میں لایا گیا ہے جن کو ہندوستان نواز، پاکستان نواز یا آزادی نوازوں کو نشانہ بنانے کا مشترکہ ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ آزادی پسندوں کو وہ سنجیدگی سے نہیں لیتے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کی وساطت سے اس بڑے طبقے کی سوچ کو تبدیل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔
اس نئے طبقے سے وابستہ ایک سرکردہ کارکن کہتے ہیں کہ ’آزادی کی تحریک میں شامل چند ’آزاد کشمیری‘ بھی بھارت کی زبان بولتے ہیں جو بیرونی ملکوں میں بیٹھ کر مکمل آزادی کے نعرے کے عوض پیسہ بھی کما رہے ہیں۔‘
کشمیر میں چند غیرسرکاری انجمنیں بھی معرض وجود میں لائی گئیں ہیں جنہیں مختلف شعبوں میں کام کرنے کی لائسنس دیئے گئے ہیں اور نوجوانوں کو پھانسنے کا منتر بھی پڑھایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان مختلف نظریات سے تعلق رکھنے والے آپ کو سوشل میڈیا کی لاتعداد سپیسز میں ملیں گے جو دوپہر کی چائے کے بعد اپنی سوچ کی آبیاری کے لیے ان لوگوں کی کلاس لینے لگتے ہیں جو دس لاکھ افواج کے پہرے میں زندہ رہنے کا موقع تلاش کر رہے ہیں، جن کو ’دہشت گرد‘ سمجھ کر آئے دن ہلاک کیا جاتا ہے، جنہیں لاش حاصل کرنے کی بھیک مانگنی پڑتی ہے، جن کا کاروبار تباہ برباد ہوچکا ہے، جن کے بچے ڈھائی سال سے گھروں میں قید ہیں اور جن کو ہر روز تین سے پانچ نوجوانوں کے ہلاکت کی اطلاع میڈیا سے مل جاتی ہے۔
اس قوم کا سپہ سالار کون ہے اور کہاں ہیں وہ لاکھوں بےبس کشمیری ابھی اس کی تلاش میں ہے جو اس کو ایک سمت میں لے کر بچا پائے گا۔
ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کر کشمیر کا رہنما بننے کا خواب دیکھنے والوں کو کاش زمینی حالات کا اندازہ ہوتا اور کچھ دن گزارنے کے لیے کشمیر کی سیر ہی کرتے۔
کشمیری مسلم مخالف دوسرے عناصر بھی سوشل میڈیا پر بیٹھ کر تشدد سے جھوجھ رہے عوام کو مزید تقسیم اور مزید انتشار میں مبتلا کرنے کا مربوط کام کر رہے ہیں، بدقسمتی سے چند معصوم لوگ ان کے جھانسے میں اکثر پھنس جاتے ہیں۔
کشمیریوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اپنے حقوق کی اس لمبی جدوجہد کو آگے لے جانے کے لیے انہیں ایسے عناصر سے نہ صرف چوکنا اور محتاط رہنا ہوگا بلکہ تمام جماعتوں کے اتحاد کے بغیر یہ جدوجہد آگے نہیں چل سکتی ہے جس میں اب بھارت اور پاکستان کے علاوہ چین بھی ایک فریق بن چکا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو میری باتیں اچھی نہیں لگی ہوں پر کوئی غم نہیں، پھانسی پر چڑھانے سے پہلے میری باتوں پر ایک بار ضرور غور کر لیجیے گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔