ایک اور موت اور ایک اور تحقیقات۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔
بچپن میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ چڑیا گھر جانوروں کے لیے محفوظ گھر ہیں۔ اس کے برخلاف چڑیا گھر عالمی سطح پر تو محفوظ ہیں لیکن بالخصوص پاکستان میں نہیں۔
چڑیا گھروں میں جانور اپنے قدرتی ماحول سے دور، بند جگہ پر محصور ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ zoochosis نامی کننڈیشن سے متاثر ہوتے ہیں جو ایک جگہ پر محصور ہونے کے باعث جانوروں کو لاحق ہوتی ہے۔
ان جانوروں کی خوشحالی کا دارومدار مکمل طور پر چڑیا گھروں میں دی گئی سہولیات، طبی عملے اور وہاں کے سٹاف پر ہوتا ہے۔
جنگل کا بادشاہ، باوقار، شاندار سفید گردن پر بال جس کو دیکھنے والا ہر شخص بےساختہ کہے کہ واقعی یہ جنگل کا بادشاہ ہے۔
لیکن کراچی کے چڑیا گھر میں 14 سالہ اس شیر کا وہ حال ہو گیا کہ ہر شخص یہ کہہ اٹھا کہ آخر یہ اس حال تک پہنچا کیسے؟
کراچی کے چڑیا گھر میں 23 نومبر کو ایک سفید شیر ہلاک ہوگیا اور19 گریڈ کے افسر کو برطرف کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔
ہٹائے جانے والے سرکاری ملازم پر الزام ہے کہ انہوں نے شیر کو بروقت طبی امداد مہیا نہیں کی۔ اس افسر پر مالی بدعنوانی، بد انتظامی اور جانوروں کی دیکھ بھال میں غفلت برتنے کے الزامات شامل ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا اور نہ ہی آخری بار۔ آسان سی بات ہے۔ جانور مرے تو ایک افسر کو برطرف کرو، تحقیقات کا حکم دو اور بس۔
کچھ عرصے بعد عوام بھول جائے گی، میڈیا کسی اور کہانی میں لگ جائے گا اور چڑیا گھر اور ان کا انتظام جیسے چل رہا تھا ویسے چلتا رہے گا۔
گذشتہ سال پشاور کے نئے چڑیا گھر کے لیے افریقہ سے زرافے خرید کر لائے گئے، جن میں سے ایک زرافہ منتقلی کے دوران چوٹیں لگنے سے راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ دوسرا چند مہینے قبل جب کہ تیسرا کچھ دن پہلے ہلاک ہوا۔
زرافے کو کوئی بیماری نہیں تھی بلکہ وہ اچانک سے زمین پر آگرا اور ہلاک ہو گیا۔ پشاور چڑیا گھر میں ہلاک ہونے والے یہ واحد جانور نہیں بلکہ جب سے یہ چڑیا گھر بنا ہے یہاں مختلف جانوروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں مور، بندر، برفانی چیتا، بنگالی چیتا وغیرہ شامل ہیں۔
پشاور کے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر افتخار زمان کا کہنا تھا ’جانور تو مرتے رہتے ہیں یہ کوئی ایسی اچنبھے والی بات نہیں۔‘
اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر سے محفوظ پناہ گاہوں میں منتقلی کے دوران ’انتظامی غفلت‘ کے باعث جانوروں کی اموات کے اسباب جانچنے اور اس میں ملوث افسران کے تعین کے حوالے سے وفاقی وزارت موسمیات تبدیلی نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
مرغزار چڑیا گھر میں جانوروں کی منتقلی کے دوران آگ لگانے کے باعث دم گھٹنے سے ایک شیر کی حالت بگڑی اور کچھ دیر بعد وہ ہلاک ہوگیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مرغزار چڑیا گھر انتظامیہ کی نااہلی کے باعث اب تک یہاں تین نیل گائے، ایک شیرنی اور ایک شترمرغ ہلاک ہوا۔
وہاڑی کے ایک چڑیا گھر سے محکمہ وائلڈ لائف کی انتظامیہ اور ملازمین کی مبینہ غفلت کے باعث چھ قیمتی کالے ہرن چوری ہوئے۔
اس واقعے کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف ملتان نے دو ملزمان کو معطل کردیا جب کہ پولیس نے آٹھ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کر دی۔
بہاولپور کے چڑیاگھرمیں نایاب نسل کے سات ہرن ہلاک ہوئے۔ بہاولپور چڑیاگھر میں نایاب نسل کے کل 29ہرن رکھے گئے تھے جن میں سے 22ہرن اچانک زمین پر گرے اور تڑپنے لگے اور سات ہلاک ہوگئے۔
رواں سال لاہور کے چڑیا گھر میں دو 11 ہفتے کے سفید ٹائیگر مر گئے۔ یہ وہ چڑیا گھر ہے جس کا سالانہ بجٹ 130 ملین روپے ہے اور یہ خود 33 ملین روپے سالانہ کماتا ہے۔
پاکستان کے چڑیا گھروں کے حوالے سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ جانوروں کے لیے آنے والی خوراک جانوروں تک کم اور سٹاف کے گھروں میں زیادہ پہنچتی ہے۔
جانوروں کے غیر معیاری سہولیات کا ہونا، جانوروں کو ابتر حالات میں رکھنا تو عام سی بات ہے۔
پاکستان میں 10 سرکاری چڑیا گھر، 25 نجی چڑیا گھر اور 28 وائلڈ لائف پارکس ہیں۔ نجی چڑیا گھروں کے لیے کسی قسم کی قانون سازی نہیں۔
خیبر پختونخوا نے ایک شخص کو نجی چڑیا گھر بنانے کی اجازت دی۔ اہم بات یہ ہے کہ صوبائی محکمہ جنگلی حیات نے اسے 40 ہزار روپے جرمانہ کیا کیونکہ اس نے شیر کو لائسنس کے بغیر رکھا ہوا تھا۔ لیکن محکمے نے جرمانہ کرنے کے بعد وہی شیر اسی شخص کو سپرد کر دیا۔
دوسری جانب کراچی میں نجی چڑیا گھر ہے جو رات کو بھی کھلا ہوتا ہے۔ رات کو تیز روشنیوں کے بیچ لوگ جانوروں کو دیکھنے آتے ہیں لیکن نجی چڑیا گھر والے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کر رہے کہ یہ روشنیاں ان جانوروں کی صحت کو متاثر کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ تفریح گاہوں میں ہوں یا باہر پھرتے جانور انہیں سنجیدگی سے تحفظ دینے کی کوشش نہیں ہوتی۔
ہمارے ہاں جانوروں کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہےْ یہ نہیں سوچا جاتا کہ یہ بھی جاندارہیں اور ان کی زندگی بھی اہم ہے۔
جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے ان پرعملدرآمد نہیں۔
جب تک ہمدردی کے تحت جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا جذبہ پوری طرح بیدار نہیں ہوگا چڑیا گھر تو کیا کہیں بھی جانور محفوظ نہیں ہوں گے۔
عالمی سطح پر اس حوالے سے کافی کام ہو رہا ہے لیکن یہاں اس جانب سنجیدگی سے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی۔