خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں عدالت نے گذشتہ سال جنوری میں آٹھ سالہ بچی عوض نور کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے میں ملوث مرکزی مجرم کو پھانسی جبکہ شریک جرم کو آج عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
عوض نور کے وکیل سید اعزاز الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بدھ کو نوشہرہ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شہناز حمید خٹک کی عدالت میں عوض نور کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کیس کی سماعت ہوئی جس میں مرکزی مجرم ابدار کو تین بار پھانسی جبکہ شریک جرم رقیق الوہاب کو عمر قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔
مقدمہ بچی کے ماموں آصف خان کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
انہوں نے اس وقت انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ عوض نور گھر سے قریبی مدرسہ کے لیے نکلی تھی لیکن واپس نہیں آئی تو گھر والوں نے ان کی تلاش شروع کردی تھی۔
آصف خان کے مطابق: ’ہم نے مساجد میں اعلانات بھی کیے تھے اور پولیس سٹیشن میں مقدمہ بھی درج کروا دیا تھا۔ شام کے بعد ہم نے گھر کے قریب واقع ایک ٹینکی میں دو افراد کو بچی کو اس میں ڈبوتے ہوئے دیکھا، لیکن ہمیں دیکھتے ہی وہ بھاگ گئے۔‘
اس وقت نوشہرہ کے ضلعی پولیس آفیسر کاشف ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’بچی کی گردن پر تشدد کے نشانات تھے اور بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی موت ٹینکی میں ڈبونے کی وجہ سے واقع ہوئی تھی۔‘
اس کے بعد پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ ملزمان نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے۔
عوض نور کے قتل پر اس وقت سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلایا گیا تھا جس میں ان کو انصاف دلانے کی بات کی جا رہی تھی۔
یہ واقعہ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی سرخی بنا تھا جبکہ اسی سلسلے میں پشاور میں ایک دھرنا بھی دیا گیا تھا۔
عوض نور کے وکیل سید عزیز الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ استغاثہ کے مطابق عوض نور کو بے دردی سے گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا اور لاش کو زیر زمین ٹینکی میں پھینک دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’عوض نور کی میڈیکل رپورٹ میں جنسی زیادتی ثابت ہوئی تھی اور آج ( بدھ) کو عدالت کی جانب سے مجرمان کو سزائی سنائیں گئیں۔‘
قتل میں ملوث ملزمان کون تھے؟
عوض نور قتل کیس کے دو ملزمان میں سے ایک کا نام رفیق جبکہ دوسرے کا نام ابدار ہے۔ عوض نور کے ماموں آصف خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزمان محلے میں ہی رہتے تھے اور ان کی آپس میں کسی قسم کی رشتہ داری نہیں اور نہ ہی کوئی دشمنی تھی۔
آصف نے بتایا کہ رفیق ٹیکسی ڈرائیور جب کہ ابدار مزدوری کرتے ہیں اور دونوں ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
’چونکہ دونوں ملزمان ایک ہی گاؤں کے تھے تو ان سے دعا سلام ہوتی رہتی تھی، لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔‘
آصف خان نے بتایا تھا کہ ’رفیق کا تعلق اوسط گھرانے سے جبکہ ابدار غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، جو پڑوسی کے دیے ہوئے گھر میں رہتے ہیں۔‘