روس میں چور 56 ٹن وزنی پل ہی لے گئے

یہ غیر معمولی چوری روس کے آرکٹک خطے میں انجام دی گئی جہاں پولیس کی ابتدائی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جرائم پیشہ گروہ 23 میٹر پُل اکھاڑ کر لے گئے جس کا وزن 56 ٹن تھا۔

(سوشل میڈیا)

یہ غیر معمولی چوری روس کے آرکٹک خطے میں انجام دی گئی جہاں پولیس کی ابتدائی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جرائم پیشہ گروہ 23 میٹر پُل اکھاڑ کر لے گئے جس کا وزن 56 ٹن تھا۔

روسی سوشل میڈیا پر فضا سے لی گئی تصاویر اور ویڈیو گردش کر رہی ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پُل کے دائیں اور بائیں حصے تو موجود ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر دریا کے بیچوں بیچ اس کا مرکزی حصہ غائب ہے۔

پولیس کے مطابق یہ واردات فِن لینڈ کی سرحد کے قریب دریائے اومبا پر قائم ریلوے پُل پر ہوئی تاہم یہ پل کافی عرصے سے متروک کیا جا چکا تھا۔

پُل کے قریب واقع آبادی کو اس چوری کے بارے میں واردات کے چند دن بعد پتہ چل سکا۔

پہلے پہل تو لوگ سمجھے کہ پُل کا مرکزی حصہ ٹوٹ کر دریا میں جا گرا ہے لیکن جب دریا میں اس کا نشان نہیں ملا اور قریبی علاقے سے ملبے کا کوئی چھوٹا سا ٹکرا بھی نہیں دریافت ہوا  تو وہ یہ جان کر دنگ رہ گئے کہ اصل میں یہ پُل چوری کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد شہریوں نے قصبے کے قریب واقعہ پولیس سٹیشن کو اس واردات کی اطلاع دی۔

پولیس نے بھی پہلے پُل کی چوری کی خبر کو مسترد کر دیا تھا تاہم بعد میں جب اس کی مجرمانہ سطح پر تحقیقات کی گئیں تو یہ چوری ثابت ہو گئی۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ مجرموں نے ممکنہ طور پر پُل کا لوہا کباڑ میں بیچنے کے لیے چوری کیا ہوگا۔ تاہم وہ ابھی تک چوروں کو پکڑنے میں ناکام رہے ہیں اور وہ ابھی تک ان کے طریقہ واردات سے بھی لاعلم ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس بارے میں چہ مگویاں شروع ہو گئی ہیں کہ اتنے بڑے پُل کو کیسے چوری کیا گیا ہو گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے چوروں نے پُل کے مرکزی حصے کو پانی میں گرا دیا ہو گا اور پھر اس کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے۔

اس سے قبل چوروں کا یہ گروہ علاقے کے دیگر ڈھانچوں کو کمزور کرتے رہے ہیں جیسا کہ 2018 کے موسم گرما میں قریبی علاقے میں ٹرانسمیشن ٹاورز کو چُرانے کی کوشش کی گئی تھی۔

روسی پولیس کے مطابق اسی طرح کی ایک اور واردات میں چور اس سے بھی بڑا پُل جس کا وزن 200 ٹن  تھا، ایک رات ہی میں چوری کر کے فرار ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ 2008 میں پیش آیا تھا۔

گذشتہ ماہ دریائے اومبا سے چوری ہونے والا پُل کافی عرصے سے غیر فعال تھا، جب ایک مقامی رپوٹر نے حکام سے دریافت کیا کہ یہ کس کی ملکیت تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کے لیے آپ کو تاریخ دانوں سے رابطہ کرنا ہو گا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ چوری شدی پُل کی قیمت چھ لاکھ روبل تھی۔

   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا