خواتین پر تشدد، مرد کیا کرسکتے ہیں؟

خواتین پر ہونے والے تشدد کی روک تھام، امتیازی سلوک کے خاتمے اور حقوق کی بحالی  کے لیے مرد کیا کرسکتے ہیں؟

 صنف کے بنیاد پر تشدد کا خاتمہ کے لیے یقیناً مردوں اور لڑکوں کی کوششوں اور کردار کو شامل کرنا ہوگا۔ لاہور میں خواتین کاتحفظ کے لیے اس سال اگست میں ایک احتجاج کا منظر (اے ایف پی) 

یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ہمارے ہاں آج بھی مردوں کی ایک بڑی تعداد یہ سوچتی ہے کہ خواتین پر تشدد یا ان کے ساتھ امتیازی سلوک، خواتین کا مسئلہ ہے اور مردوں کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔

ہم اگر اپنے اردگرد موجود حقائق اور روزمرہ کے معمولات دیکھیں تو خواتین پر ہونے والے تشدد کی روک تھام، امتیازی سلوک کے خاتمے اور حقوق کی بحالی میں مرد بہت کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ہمارا معاشرہ آج بھی  پدرسری نظام کے زیر تسلط ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ عمومی طور پر مردوں کو اپنے ممکنہ کردار کا ادراک نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔

اسی امر کا احساس کرتے ہوئے اب بہت سارے ادارے اور متعلقہ لوگ اس بات پر زور دے رہیں ہیں کہ مردوں کے کردار پر نہ صرف زیادہ سے زیادہ آگہی کی ضرورت ہے بلکہ عملی طور پر ایسے منصوبوں اور اقدامات اٹھائے جائیں جن سے مردوں کو ایک موثر کردادر ادا کرنے میں مدد مل سکے گی۔ اس کے نتیجے میں ایک متوازن معاشرے کی بنیاد مرد و خواتین مل کر رکھ سکیں گے۔

ہر سال 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن اور 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر دنیا صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف مختلف سرگرمیاں 16 دن تواتر سے مناتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال کا تھیم ’اورنج دی ورلڈ: وائلنس اگینسٹ ویمن ناؤ‘ ہے۔ اس میں نارنجی، اقوام متحدہ کی خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی مہم کا باضابطہ رنگ ہے۔ نارنجی رنگ اجالے کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ مہم صنفی بنیاد پر تشدد (GBV) کی تمام اقسام کے خاتمے کے لیے کام کرتی ہے، بشمول GBV کے بارے میں بیداری پیدا کرنے سے لے کر عالمی اور مقامی کوششوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ، اس چیلنج کے خلاف دنیا بھر کی خواتین میں یکجہتی کے فروغ کے اقدامات کو بھی سراہتی ہے۔ لیکن چونکہ اب ہر سطح پر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاچکا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد صرف ’خواتین کا مسئلہ‘ نہیں ہے۔

صنف کے بنیاد پر تشدد کا خاتمہ کے لیے یقیناً مردوں اور لڑکوں کی کوششوں اور کردار کو شامل کرنا ہوگا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے بہترین طریقے ہیں جن سے مرد اور لڑکوں کو موثر طور پر شامل کیا جائے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہم نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو روکنے کی کوششوں میں مردوں اور لڑکوں کے بہترین حلیف ہونے کے چند کلیدی طریقوں کو اکٹھا کیا ہے۔ جس کا آج ہم تفصیلی ذکر اس امید کے ساتھ  کریں گے کہ اس سے ہمارے مردوں کو اپنا موثر کردار سمجھنے میں مدد ملے گی۔

بچوں کی حفاظت کو بہتر بنانا: بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول بنائیں۔ تحقیق و حقائق کے مطابق مرد بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بشمول گھر، سکول اور کمیونٹی میں، جو کہ صنفی مساوات کی کوششوں میں مردوں اور لڑکوں کو شامل کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 27 میں سے 24 ممالک کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تشدد اور صدمے کا سامنا، چاہے بچپن میں ہو یا تنازعہ کے تناظر میں، مردوں کے اپنے قریبی ساتھیوں کے خلاف تشدد کے استعمال سے جڑا ہوا ہے۔ یہ تشدد کا ایک ایسا چکر پیدا کرتا ہے جسے توڑا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے بچوں کی پرورش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ 2019 میں  تیار کردہ سٹیٹ آف دی ورلڈ فادرز کی رپورٹ کے مطابق جب مرد بچپن سے ہی اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور نشوونما میں ایک لازمی حصہ ادا کرتے ہیں، تو یہ ایک قریبی رشتہ اور تعلق کو فروغ دیتا ہے۔

رپورٹ کے نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب باپ بچوں کی دیکھ بھال میں زیادہ ملوث ہوتے ہیں تو اس سے خواتین اور بچوں اور خود مردوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ مزید بتاتا ہے کہ دیکھ بھال کے کام میں مردوں کی زیادہ شمولیت خواتین کے خلاف مردوں کے تشدد میں کمی سے منسلک ہو سکتا ہے۔

 زہریلے نقصان دہ مردانگی کے خیالات کو روکیں: آپ نے ضرور ’زہریلی مردانگی‘ کی اصطلاح سنی ہوگی، جو روایتی طور پر ہمارے ہاں مردانہ خصوصیات اور ان کے منفی اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ ان خصلتوں میں طاقت، جذبات کی ترغیب اور غلبہ جیسی چیزیں شامل ہیں۔ یہ جنسی جارحیت اور تشدد کے رجحان جیسے طرزعمل کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’زہریلی مردانگی‘ کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف خواتین اور بچوں کے لیے فائدہ مند ہے  بلکہ مردوں کے لیے بھی۔

چلڈرن ڈگنیٹی فورم  کے مطابق مردوں کو گھر میں اور اپنی کمیونٹی میں لڑکوں کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ لڑکوں کو زہریلی مردانگی کے نقصانات سے آگاہ کرسکیں اور اس سے بچاوؐ پر آمادہ کرسکیں۔

اپنے اردگر کی خواتین کو یہ باور دلائیں کہ آپ نہ صرف ان پر اعتبار کرتے ہیں بلکہ ان کی بات اور رائے کو سنتے اور اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ ایک عام رویہ ہے کہ خواتین کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا جس کا نقصان یہ ہے کہ کئی خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر خاموش ہوتی ہیں اور اگر کوئی اکادکا خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کا اظہار کرے تو ہمارے ہاں ایسی خواتین کو شدید منفی رویوں اور اختلافات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایک عورت کا اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی کہانی شیئر کرنا بدسلوکی کے چکر کو توڑنے کا پہلا قدم ہے۔ لہذا جہاں کوئی عورت اپنے ساتھ ہونے والے کسی ظلم و زیادتی کا اظہار کرے وہاں متعلقہ مرد انصاف کے حصول میں ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے اسے مکمل تحفظ کا احساس دیں۔

آپ کے اردگرد تمام خواتین اور لڑکیوں کو آپ کے گھر، سکول اور دفاتر میں آپ کی پوری کمیونٹی کی طرف سے اعتماد اور بھروسے کی ضرورت ہے تاکہ ان تمام جگہوں پر وہ نہ صرف اپنے اپ کو محفوظ سمجھ سکیں بلکہ یہاں اس سے وابستہ امور میں وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا استعمال کر سکیں۔

مختلف اعدادوشمار اور حقائق سے ثابت ہے کہ COVID-19 جیسے وبائی بیماری کے دنوں میں لاک ڈاؤن کے دوران خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا جس سے امدادی خدمات کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ لہذا مردوں کو خواتین کو خدمات اور امداد مہیا کرنی والی مقامی اور عالمی سطح کی تنظیمیوں کی مدد کرتے ہوئے صنفی بنیاد پر تشدد کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔

اپنی مقامی کمیونٹی میں دستیاب خدمات اور تنظیموں کو چیک کریں اور یہ معلوم کریں کہ انہیں آپ کی مدد کی ضرورت کیسے ہے۔ آپ اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ ہو۔

عصمت دری کے کلچر کے خلاف کھڑے ہوں: ہمارے معاشرے میں جنسی تشدد بظاہر ایک معمول بنتا جا رہا ہے — میڈیا سے لے کر ہمارے لطیفوں تک، جو ہم سناتے ہیں، جن پر ہم ہنستے ہیں لیکن ہم اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کو مشکل سمجھنا اور اس کے حل کے لیے سنجیدہ ہونا اسے ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ ہمیں ہر دن، ہر لمحہ اپنے رویوں کا جائزہ لینا ہوگا اور یہ سوچنا ہوگا کہ ہم نادانستہ طور پر خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم  میں کمی کا باعث بن رہے ہیں یا اس میں اضافہ کر رہیں ہیں؟

 آپس میں بات چیت شروع کریں: ہم اپنے اردگرد کے لوگوں سے بہت زیادہ سیکھتے ہیں، چاہے وہ سکول ہوں، کام کی جگہ، ہمارے خاندان یا ان لوگوں سے جن سے ہم آن لائن بات چیت کرتے ہیں۔ جب آپ دنیا بھر کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک بہتر اتحادی بننے کے لیے اپنے سفر پر ہیں، تو کیوں نہ آپ جو کچھ سیکھ رہے ہیں اسے آپ اپنی آن اور آف لائن کمیونٹیز کے لوگوں کے ساتھ شیئر کریں؟

جنسی تشدد کے بارے میں بات چیت کو معمول پر لاکر ان ممنوعات اور بدنامیوں کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک اہم قدم ہے۔ آپ مختلف آن لائن مہمات، جو خواتین کے حقوق سے متعلقہ موضوعات پر ہیش ٹیگ ٹرینڈ چلاتے ہیں کا حصہ بن سکتے ہیں جس میں نہ صرف آپ اپنی آرا شیئر کرسکتے ہیں بلکہ اپنی معلومات میں اضافہ بھی کر لیں گے۔

آپ خواتین کے حقوق اور صنفی تشدد کے بارے میں آن لائن مزید جاننے کے ساتھ ساتھ اس میں مدد کرنے کے لیے ہر روز ایک آسان قدم اٹھا سکیں گے۔ آپ اپنے پیاروں کے ساتھ اہم بات چیت شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی برادری میں خواتین کی ملکیت والے کاروبار کی حمایت کے لیے بات کرسکتے ہیں۔

اس سال ایکٹیوزم مہم کے 16 دنوں کے دوران عالمی شہریوں سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ عالمی سطح پر خواتین کی صحت اور حقوق کے لیے کھڑے ہونے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔

 ایک دوسرے کو جوابدہ بنائیں: صنف پر مبنی امتیاز اور جنسی تشدد کی مختلف شکلیں ہیں اور ہر قسم کی جگہوں پر آن لائن اور آف لائن، دونوں جگہوں میں واقع ہوتا ہے، چاہے وہ سکول ہوں، گھر ہوں، دفتر ہوں، گلی میں، پبلک ٹرانسپورٹ پر۔ اگر ایسا کوئی واقع آپ کے سامنے رونما ہوتا ہے تو متعلقہ ادارے کو مدد کے لیے کال کرسکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ متاثرہ خاتون یا بچے کی مدد کرسکیں اور اسے انصاف دلا سکیں۔

نقصان دہ دقیانوسی تصورات سے آزاد ہونے کے لیے لڑکوں کی بہتر  پرورش کریں۔ والدین، اساتذہ، کوچز، اور پالیسی ساز سبھی نے اس عقیدے کو چیلنج کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے کہ لڑکوں اور مردوں کے لیے تشدد ایک معمول ہے۔

بطور علمی تخلیق کار، جامع کہانی سنانے کا عہد کریں اور عام، نقصان دہ صنفی دقیانوسی تصورات سے بچیں۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا نقصان دہ صنفی اصولوں کو چیلنج کرنے کی طاقت رکھتا ہے، لہذا ان فورمز پر ان صنفی دقیانوسی تصورات پر بحث کریں اور لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ خواتین کی رائے سننے، ان کے تجربات کو تسلیم کرنے اور پھر دوسرے مردوں کو مطلع کرنے کے مواقع تلاش کریں۔ پائیدار تبدیلی کے لیے مردوں اور خواتین کی ترقی کے عمل میں موثر شمولیت انتہائی اہم ہے۔ اس سلسلے میں زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کے لیے ایک محفوظ اور سازگار ماحول بنانے میں سب کو بحیثیت معاشرہ مل کر اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

 خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کی مہموں میں حصہ لیں، جیسے وائٹ ربن مہم، جو کہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے خاتمے کے لیے پوری دنیا میں اکتوبر میں ہر سال منائی جاتی ہے۔ صنفی بنیاد پر تشدد کے بارے میں کبھی بھی ارتکاب، تعزیت، یا خاموش نہ رہنے کا عہد کریں۔ خواتین کی معاشی ترقی اور قیادت کے عہدوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔ مساوات اور عدل کی حمایت کریں – ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو خواتین معاشی طور پر زیادہ بااختیار ہیں وہ اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کو ظاہر کرنے کے لیے زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں۔

 نقصان دہ مردانہ رویوں اور طور طریقوں کو چیلنج کریں جو مردوں کے پرتشدد روئے اپنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس کو شہہ دیتے ہیں۔ اپنے دوستوں، ساتھیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ کھل کر بات کریں: جنس پرست خیالات، ذومعنی لطیفے اور زبان کو مکمل رد کریں۔

ان تمام  طریقوں اور رویوں پر غور کریں جن کو ہم عرصے سے نظرانداز کرتے آ رہے ہیں۔ صنفی مساوات کے حلیف کے طور پر اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کریں اور اپنے آس پاس دیگر مردوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ