نور مقدم کے قتل کو قریباً ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے قرة العین کا قتل ہوا تھا۔ درمیان میں صائمہ کا ذکر بھی آیا۔ جسٹس فار عندلیب کا ہیش ٹیگ بھی چلا۔ اس وقت جسٹس فار نسیم بی بی کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔
ٹوئٹر کی سرچ بار میں ہیش ٹیگ جسٹس فار لکھیں۔ سینکڑوں نام آپ کے سامنے آ جائیں گے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے نام ہیں جو کبھی سوشل میڈیا تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔
کسی کا قاتل اس کا اپنا شوہر ہے۔ کسی کو اس کا سگا بھائی مار دیتا ہے۔ قندیل بلوچ یاد ہے نا؟ کوئی اپنے دوست کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ ان سب سے بچ جائے تو انجان مرد تو ہے ہی۔
ان ہی کیسز کی بات کریں تو قرة العین کو اس کے شوہر نے تشدد کر کر کے مار دیا۔ نور کو اس کے بچپن کے دوست نے بے رحمی سے قتل کیا۔ عندلیب سکول سے گھر جا رہی تھی۔
اسے ایک انجان نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ نسیم بی بی کا قصہ بھی سن لیجیے۔ پولیس کے مطابق انہیں اور ان کے بچے پر جس نے خنجر سے وار کیے، اسے وہ پہلے سے جانتی تھیں۔
ایسے ہر کیس کے بعد مردوں کی طرف سے سوال آتے ہیں کہ عورت گھر سے باہر ہی کیوں نکلی، نکلی تھی تو کیا پہن کر نکلی تھی؟ اسلام میں پردہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس نے باہر نکلنے سے پہلے پردہ کیوں نہیں کیا؟ آپ ہی بتا دیں۔
کیا آپ پردہ دار اور غیر پردہ دار میں فرق کرتے ہیں؟ آپ تو انسان اور جانور میں بھی فرق نہیں کرتے۔ زندہ اور مردہ عورت میں بھی فرق نہیں کرتے۔ آپ کس منہ سے ایسے سوالات کرتے ہیں؟
ایسی عورتیں بھی ہیں جن کے لیے تو اس کا اپنا گھر دنیا کی خطرناک ترین جگہ بن گیا ہے۔ اسے قتل ہونے کے لیے گھر سے باہر بھی نہیں نکلنا پڑتا۔ گھر کے اندر موجود اس کے ’رکھوالے‘ اسے مارنے کے لیے کافی ہیں۔
قرة العین اور قندیل بلوچ اپنے گھروں میں ہی قتل ہوئیں۔ اپنے رشتے داروں کے ہاتھوں۔ ایک کا قاتل اس کا شوہر تو دوسری کا قاتل اس کا بھائی۔
ہم تھک چکی ہیں۔ ہر روز ایک نئی عورت، ایک نیا ہیش ٹیگ۔ ہم ہر ہیش ٹیگ کے نیچے وہی الفاظ لکھ لکھ کر تھک چکی ہیں۔
عورتوں پر ہونے والے مظالم کی وجہ آپ اور آپ کی فرسودہ سوچ ہے۔ سب کچھ آپ خود کرتے ہیں پھر الزام عورت پر ڈال دیتے ہیں۔ آسان جو ٹھہرا۔
آپ کہیں گے ہر مرد ایسا نہیں ہوتا۔ اوپر جن مردوں کا ذکر ہوا، یہ بھی ایسے نہیں تھے۔ پھر یہ ایک دن ایسے بنے۔ کیونکہ انہیں آپ سپورٹ کر رہے تھے۔ چپ رہ کر۔ ان کی باتیں سن کر۔ ان کی روک ٹوک نہ کر کے۔ انہیں قبول کر کے۔
انہیں چھوڑیں۔ اپنا آپ دیکھیں۔ اپنے دوست احباب، رشتے دار، محلے دار یا جس سے بھی ملنا ملانا ہے اس پر نظر ڈال لیں۔
ان میں سے کتنوں کے قصے آپ نے ہنستے ہنستے سنے ہیں؟ کتنوں کو ’کچھ‘ کرنے کی شہہ دی ہے اور ان میں سے کتنوں کو ’کچھ‘ کرنے کے بعد شاباشی دی ہے؟
آپ عورت کی آزادی کے خلاف ہیں۔ عورت کے برابر کے حقوق کے خلاف ہیں۔ جو ان کے حق میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی ایک آدھ جملے کے بعد لیکن لے آتے ہیں۔
’میں عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑا چیمپئین ہوں لیکن۔۔۔۔‘ بھائی، اپنا یہ لیکن اپنے پاس رکھو۔ ہمیں نہیں چاہیے۔
ہم قید ہیں کیونکہ آپ آزادی کی حدیں پار کر کے پتہ نہیں کہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ ہم تنگ ہیں کیونکہ آپ اپنے حقوق میں جرائم کو بھی شامل کر چکے ہیں۔
آپ کی آزادی کی قیمت ہمیں قید ہو کر ادا کرنی پڑتی ہے۔ آپ بلا مقصد گلیوں میں کھڑے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نہ ہم گھر سے باہر جا سکتے ہیں، نہ ٹیرس میں بیٹھ سکتے ہیں اور نہ چھت پر جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آپ نے اپنے ہاتھ میں جو فون پکڑا ہوا ہے اس کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے فون چھین لیا جاتا ہے۔ ہمیں انٹرنیٹ استعمال کرنے نہیں دیا جاتا کیونکہ آپ ہمیں انٹرنیٹ پر محفوظ نہیں رہنے دیتے۔
آپ ہر دوسرے مہینے اپنے دوستوں کے ساتھ ملک کے ہر کونے کی سیر کو جا سکتے ہیں۔ ہم اپنے گھر کے قریب موجود پارک میں بھی اپنی مرضی سے نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں بھی آپ موجود ہوتے ہیں۔
آپ اپنی نظروں اور اپنی موجودگی سے ہماری وہاں موجودگی حرام بنائے رکھتے ہیں۔ ان ہیش ٹیگز کو دیکھنے کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے لیے روئیں یا اپنے لیے آپ کا شکر ادا کریں کہ ہم پر آپ کا ظلم بس یہیں تک محدود رہا ورنہ ان کی جگہ ہم بھی ہو سکتی تھیں۔ یا کل ہماری باری ہے؟
اس سے پہلے کہ آپ ’ناٹ آل مین‘ کہیں، بتا دوں کہ ہر عورت کے پاس کسی نہ کسی مرد کا نام موجود ہے۔ انہوں نے نام لینے شروع کیے تو آپ منہ چھپاتے پھریں گے۔
اس لیے اپنا منہ بند رکھیں۔ خاص طور پر اس وقت جب عورتیں ماتم کر رہی ہیں۔ انہیں نہ بتائیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔
آپ عورتوں کے ساتھی ہونے کا دعویٰ نہ کریں، ان کے ساتھی بن کر بھی دکھائیں۔ اپنی خاموشی توڑیں اور اپنے ہم جنسوں کو ان کے ہر اس فعل پر ٹوکیں جس سے عورتیں تنگ ہوتی ہیں ورنہ کل ایک نئی عورت قتل ہو گی اور اس کے ذمہ دار بھی آپ ہوں گے۔