ہدایت کار یاسرنواز کی تیسری فلم ’رانگ نمبر2‘ ایک روایتی کامیڈی فلم ہے جس کے زیادہ ترکردار یا تو بےوقوف ہوتے ہیں یا سادہ لوح۔
واضح رہے کہ یہ رانگ نمبر کا سیکیوئل نہیں بلکہ یاسر نواز کے مطابق یہ ایک کامیڈی فرنچائز ہے۔
فلم میں نیلم منیر، سمیع خان، جاوید شیخ، محمود اسلم، ثنا فخر اور خود یاسرنواز بھی ہیں مگر مرکزی کردار اگر کوئی ہے تو وہ خود یاسر ہیں کیونکہ یہ فلم ان سے شروع ہوکرانہیں پرختم ہوتی ہے۔
گُل نواز(جاوید شیخ) ایک ارب پتی شخص ہے جوہرقیمت پرسیاست کے ذریعے وزیر بننےکا خواہش مند ہے۔
اس کی اکلوتی بیٹی زویا (نیلم منیر) عمر(سمیع خان) سے پیار کرتی ہے اور اس کے ساتھ بھاگ جانا چاہتی ہے کیونکہ اس کا باپ کسی غریب سے اس کی شادی کرنے کے خلاف ہے، مگرعمراسے روکتا ہے۔
وزیرعلی (محموداسلم) گُل نواز کا معتمدِ خاص ہے اور اسے ساری دنیا بشمول بیٹے سے اپنی نوکری پیاری ہے۔
محبوب (یاسر نواز) ایک سرکاری دفترمیں کام کرتا ہے اور بہت ایماندار اور اپنی بیٹی کےعلاج کے لیے پریشان ہے جسے دل کا عارضہ لاحق ہے۔
اس کی بیوی معصومہ (ثنا فخر) ایک فٹنس سینٹر میں کام کرتی ہے۔ ہیپی (احمد حسن) ایک سیاست دان چوہدری صاحب (شفقت چیمہ) کا بیٹا ہے جو زویا سے شادی کرنے کو بے تاب ہے۔
فلم کی کہانی میں ربط ہے اور بہترہدایت کاری اسے مزید دلچسپ بنا سکتی تھی۔ فلم میں اپنےنام کی طرح ہر کردارکی مختلف کنفیوژن، ابہام اور خواہشات کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں کودکھایا گیا ہے اور جہاں ہرکردار اپنےمسائل میں گِھرا ہوا ہے۔
تاہم دوسری جانب یہی کہانی اس وقت بہت کمزورمحسوس ہوتی ہے جب آپ کہیں عقل سے کام لینا شروع کریں۔
گُل نواز ایک پشتون کردار ہے اور اس کا سیکریٹری بھی پشتون ہے، مگر اس کے دیگر چار نوکروں میں ایک بھی پشتون نہیں اور وہ اپنی بیٹی کی شادی ایک چوہدری کے بیٹے سے کررہا ہے جبکہ ہمارے ملک میں سیاست زیادہ ترعلاقائی ہوتی ہے۔
فلم کی عکس بندی خوبصورتی سے کی گئی ہے اور کئی تاریخی عمارتوں سمیت کئی خوبصورت مقامات اچھے اندازسے فلمائےگئے۔
فلم کی موسیقی کچھ خاص نہیں اور گانے ’یاریاں‘، ’توہی ہررنگ میں‘ اور شادی کا گانا ’آجا آن ڈانس فلور‘ فلم میں کوئی اثرنہیں ڈالتے۔
شادی کے گانے ’آجا آن ڈانس فلور‘ میں یشما گِل کو لاکر گویا ضائع کیا گیا، اگر آدھا وقت سمیع اور نیلم کے ڈریم سیکوئنس کو دیا تھا تو آئٹم گرل کی کیا ضرورت تھی۔
فلم کا سب سے دلچسپ گانا ’میرا ہینڈ سم پیا‘ اینڈ کریڈٹس میں ڈالا گیا جسے فلمایا تک نہیں گیا، اگر اسے فلمایا جاتا تو یہ ایک مزیدار گانا بن سکتا تھا۔
اداکاروں کی بات کی جائے تو نیلم منیرکا ایک چلبلی، لاپرواہ اور باغی لڑکی کا کردار مزیدار رہا۔ انہوں نے فلم میں گلیمرکی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ نیلم منیر کے بےباک انداز بڑے پردے پربہت کھُل کرنظرآئے۔
تاہم توقع کے برخلاف ان کا رقص نہ ہونے کے برابر ہی تھا۔ صرف ایک شادی کے گانے ’آجا آن دا فلور‘ میں شائقین کو ان کے دو،چار ٹھمکے دیکھنے کو ملیں گے۔
کہتے ہیں اداکار چہرے کے تاثرات سے اداکاری کرتا ہے، اگر اسے پیمانہ رکھیں تونیلم نے میدان مارلیا۔
فلم کے ہر سین میں ان کی آنکھیں اور چہرے کے تاثرات سے کہانی میں دلچسپی کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔
سمیع خان اس فلم میں خال خال ہی نظر آئے، سوائے کلائمیکس کے ایک سین کے، ان کو کہیں بھی کُھل کر کچھ کرنے کا موقع نہیں مِلا۔
ویسے تو اس فلم میں روایتی ہیرو، ہیروئین کا سہارا نہیں لیا گیا لیکن اس فلم کا اگر کوئی مرکزی کردار تھا تو وہ محبوب (یاسر نواز) خود تھے اوریہی اس فلم کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔
جب ہدایت کار خود کیمرے کے سامنے آکر اداکاری کرے تو اسے کون ہدایات دے گا۔ یاسر نواز نے جتنے بھی سین کیے وہ کسی نہ کسی لحاظ سے کمزور رہ گئے بلکہ چند ایک تو بلا ضرورت تھے جیسے ریڈ لائٹ ایریا کا سین یا کچرا پھینکنے پر بحث۔
فلم میں مزاحیہ جملے تو کافی ہیں مگر اکثرجملے کچھ پھکڑ پن کا شکار اور عامیانہ ہیں۔ مثلاً ہیپی کا یہ کہنا کہ یا تو زویا سے شادی کروا دیں یا 200 لیٹر ٹھنڈا پانی مجھ پر ڈال دیں کیونکہ تیسرا کوئی راستہ نہیں یا پھرایک بزرگ کردار کا ویاگرا کھا کر پولیس سے دس منٹ مانگنا۔
یاسر کے بھائی دانش نواز کا بھی اس فلم میں ایک چھوٹا سا کردار ’سیکسی شوکت‘ ہے جو زویا کے عشق میں دیوانہ ہے، مگر اس کا کردار بھی ادھورا اور بے ربط ہے۔
پاکستانی فلم سازوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ ملٹی پلیکسز کے بعد اب ’فرنٹ سیٹرز‘ نہیں ہوتے۔ یہ سنگل سکرین کا فارمولہ تھا جہاں اگلی نشستوں کا سستا ٹکٹ ملتا تھا۔
جاوید شیخ اور محمود اسلم کے کرداروں نے ایک دوسرے کے ساتھ بہتر انداز میں کام کیا اور اسی لیے محسوس ہوتا ہے کہ فلم میں ان کا کرداروں کا کام بڑھایا گیا۔
ایک موقع پر جب ثنا جاوید شیخ کے گھر کام والی بن کر آتی ہے تو جاوید شیخ کو اس میں دلچسپی لیتا دیکھ کر ماضی کہ اس مشہور جوڑی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
احمد حسن بطور ہیپی فلم کے آخر میں وارد ہوتے ہیں اور لکھاری ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں اپنا ایک بھی اچھا مکالمہ نہیں لکھ سکے۔
انہوں نے سوائے حد درجے اوور ایکٹنگ کے کچھ نہیں کیا، ان کا شیروانی والا جملہ تو ٹریلر ہی میں ہے۔
اگر مجموعی طور دیکھا جائے تو یہ فلم یاسر نواز کی گزشتہ فلم ’مہرالنسا وی لب یو‘ سے کافی بہترہے۔
فلم میں کرداروں پر کچھ کام ہوا ہے تاہم سب سے مشکل کام ایسی فلموں میں کلائمیکس ہوتا ہے اور اس فلم کا کلائمیکس ہی سب سے کمزور ہے۔
ان سب کے باوجود ’رانگ نمبر 2‘ عوام کے لیے مصالحہ رکھتی ہے اور یہی چیز اس فلم کو باکس آفس پر بہتر نمبرزدلانے میں معاون ثابت ہوگی کیونکہ اچھی لگے یا بری بوریت محسوس نہیں ہونے دے گی۔
Rating: 3.0/5.0