70 کی دہائی تھی جب ہم اپنے گائوں کے سرکاری پرائمری سکول میں پہلی جماعت میں داخل ہوئے۔ تب ہمیں زندگی کے پہلے کنفیوژن سے واسطہ پڑا۔ بغیر بجلی کے اس دور میں گورے کے چاند پر پہنچنے کا بڑا غلغلہ تھا۔ ہم دیہاتی تذبذب کا شکار تھے کہ آخر توے جتنا حجم رکھنے والے چاند پر انسان کیسے اُتر سکتے ہیں؟
ہمارا یہ کنفیوژن اس وقت دور ہوا جب شہرسے ایک جید مولانا نے ہمارے گائوں آ کر اس حساس موضوع پر خطاب فرمایا۔ انہوں نے ہم جاہلوں کو بتایا کہ چاند مبارک پر کوئی انسان قدم نہیں رکھ سکتا اور جس نے بھی غیرمسلموں کے اس دعوے کو تسلیم کیا، اس کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ ہم نے دل ہی دل میں کثرت سے توبہ استغفار پڑھی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارا ابھی نکاح نہیں ہوا تھا ورنہ ہم تو اسکول ماسٹر صاحب کی لچھے دار باتوں میں آ کر گورے کے چاند پر پہنچنے کی بے سروپا بات کو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔
یہ اسی تلخ تجر بے کا نتیجہ ہے کہ آج جب ہم ’نکاح زدگان‘ میں شامل ہیں تو ناسا جیسے خلائی اداروں کی طرف سے مریخ، پلوٹو اورنئی نئی کہکشائوں کی خاک چھاننے جیسے دعوئوں کولفٹ نہیں کراتے اور نہ ہی ان پرسوچنے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ ویسے بھی بقول استاد محترم عطاء الحق قاسمی ’میں ایک ایسی قوم کا فرد ہوں، جس نے گذشتہ کئی صدیوں سے کوئی بات نہیں سوچی۔‘
یہ کئی لحاظ سے احسن فعل ہے۔ مثلاً اگر سوچنے سمجھنے کی لعنت سے پاک رہا جائے تو جسمانی صحت بھی اچھی رہتی ہے، بندہ آشوبِ آگہی کے مہلک اثرات سے بھی محفوظ رہتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نکاح بھی نہیں ٹوٹتا۔
80 کی دہائی میں جب ہم شہرکے کالج میں پہنچے تودوسرے کنفیوژن نے آ گھیرا۔ کراچی کی اداکارہ انیتا ایوب نے کسی انڈین فلم میں بِکینی پہنی تو حسب معمول ہماری قومی غیرت کا جنازہ نکل گیا۔ اس نازک موقع پر ہم دیہاتی بھی شہریوں کے شانہ بشانہ انیتا کو پھانسی دینے کے مطالبات میں پیش پیش تھے۔
تاہم یہ زمانہ جاہلیت تھا اور دیہاتوں میں انٹر نیٹ تو کجا، وی سی آر بھی نہیں تھے۔ ہم مضافاتی ابھی بِکینی کی زیارت سے محروم تھے اور سوچتے تھے کہ آخر اس نامرادنے دشمن کی فلم میں ایسا کونسا ظالم لباس پہنا ہے کہ جس نے ہمارے جذبات آتش ناک بنا دیے ہیں؟
اس وقت بھی یہی دانشور قاسمی صاحب قوم کی رہنمائی کے لیے آگے آئے اور اپنے کالم میں لکھا کہ ’بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بکینی کیا ہوتی ہے، میں سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ بکینی کچھ بھی نہیں ہوتی۔‘
اس جامع وضاحت سے جہاں ہمارا کنفیوژن دور ہوا، وہاں ہم نے ایک مرتبہ پھر دل ہی دل میں کثرت سے توبہ استغفار پڑھی اور خدا کا شکر ادا کیا، جس نے ہماری گناہ گار آنکھوں کو بکنی دیکھنے سے محفوظ رکھا ورنہ جانے ہمارے ایمان کا کیا حشر ہوتا۔
تیسرے کنفیوژن کا سامنا ہمیں حالیہ عید کے روز کرنا پڑا، جب ہم جب سیاسیات اور قانون کی ڈگریوں پر ہاتھ صاف کر کے عملی زندگی میں ہیں۔ ہمارے روحانی پیشوا، پیر و مرشد، بحرِعلم اور عالم بے بدل ملک کے بہترین ہسپتالوں کی خاک چھانتے تنگ آ گئے مگران کی بیماری کی صحیح تشخیص نہ ہو سکی۔ جتنے ڈاکٹر، اتنی بیماریاں اور جتنی لیبارٹریاں، اتنے رزلٹ۔ آخرآپ رمضان المبارک سے قبل اپنے ڈاکٹروں سے ناراض ہو کر ملکی سرحدوں سے نکلے تو پھر مقام راہ میں کوئی جچا ہی نہیں۔ وہ رائٹ برادرز کی ایجاد کی جدید شکل ایک مغربی ایئر لائن کے طیارے میں سوار ہوئے اور سیدھے امریکہ جا کر جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ایک مہنگے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔
نیویارک کے یہودی ڈاکٹروں نے ہمارے اعلیٰ حضرت کا بڑی محبت اور توجہ سے مکمل میڈیکل چیک اپ کیا۔ غیر محرم عیسائی نرسوں نے اپنے دودھیا ہاتھوں سے ان کے غیرت مند خون کے متعدد نمونے لیے اور اغیار کی جدید کمپیوٹرائزڈ سائنسی مشینوں نے بتایا کہ ہمارے پیر و مرشد کئی سالوں سے پسی ہوئی اینٹیں ملی مرچیں، کپڑے رنگنے والے رنگ ملی ہلدی، کیمیکلز اور چھپڑوں کا پانی ملا دودھ، مردار کی انتڑیوں سے تیار شدہ کوکنگ آئل، گدھے کے گوشت کی کڑاہی اور لکڑی کا برادہ ملی کیڑے زدہ گندم کی روٹی نوش جاں فرما رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جعلی ادویات اور وزن اور کولیسٹرول کی زیادتی نے آپ کے جسمانی عناصر کے ظہور ترتیب کو درہم برہم کر رکھا ہے۔ نیز ملاوٹی خوراک نے معدے کے السر کو جنم دیا ہے اور زائد چربی نے خون کی شریانوں پر دبائو بھی بڑھا رکھا ہے۔ اگرچہ زہر ان کے جسم میں سرایت کر چکا تھا مگر قریباً ایک ماہ تک شافی علاج کے بعد اللہ نے ان پرکرم کیا۔
معدے کا ایک عدد آپریشن بھی کیا گیا جس کے دوران پارسیوں کی ایک فلاحی تنظیم نے آپ کے لیے پانچ بوتل خون کا بندوبست بھی کیا۔اثنائے علاج حضرت کے ساتھ موجود ان کے بڑے صاحبزادے، برائن ایکٹن اور یان کُوم کی جدید سروس وٹس ایپ، کیون سسٹرم اورمائیک کریکر کی ایجاد انسٹاگرام، جیک ڈورسی کے ہنر کے شاہکار ٹوئٹر اور مارک زکربرگ کی ذہانت کی عطا فیس بک پر آڈیو اور ویڈیو کالزکے علاوہ تصویروں اور ویڈیو کلپس کے ذریعے عزیز و اقارب اور مریدین سے مسلسل رابطے میں رہے اور ہم سب ہزاروں کلومیٹر دور رہ کر بھی ان کے علاج معالجے کی صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رہے۔
اللہ کے فضل سے انہیں شفا نصیب ہوئی اور یہودی اورعیسائی ڈاکٹروں کےایک پینل نے آپ کو صحت یابی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے روزانہ ورزش اور کم خوراکی کا مشورہ دیا۔
تاہم ابھی ادویات کی ضرورت تھی جو انہیں وہیں سے مہیا کی گئیں اور وطن عزیز کی دوائوں سے پرہیز کا مشورہ بھی دیا گیا۔ آپ تندرست ہو کر اسی مغربی ایئر لائن کے طیارے میں واپس تشریف لائے اور جلوس کی شکل میں بابائے آٹو موبیل ہنری فورڈ کی ایجاد کی موجودہ شکل ایک جاپانی لگژری گاڑی میں اپنے دولت خانے پر لائے گئے۔
عید الفطرکے دن ہم چند عقیدت مندوں نے انہیں صحت یابی اورعید کی مبارکباد دینے کی غرض سے آستانے پر حاضری دی۔ اعلیٰ حضرت ایڈیسن کے ایجاد کردہ برقی قمقموں سے منور اور ولز کیرئیر کے فن کی عطا ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں جنوبی کوریا کے تیارشدہ لگژری واٹربیڈ پر نیم دراز، امریکی انجینیئر مارٹن کوپر کی ذہانت کے شاہکار اپنے قیمتی آئی فون پر لندن میں بسلسلہ تعلیم مقیم اپنے چھوٹے صاحبزادے کو اپنے شاندار علاج کی تفصیلات بتا رہے تھے۔
ساتھ ہی ریمورٹ ہاتھ میں پکڑے جرمنی کے ڈش انٹینا کی مدد سے ٹی وی کے موجد سکاٹ لینڈ کے الیکٹریکل انجینیئر جان لوگی کی سائنس بروئے کار لا کر مختلف ممالک کے نیوز چینل بھی ملاحظہ فرماتے جا رہے تھے۔ ان کے چہرے پر نور برس رہا تھا۔ ملازم نے ولیم کالن کے فن کی جدید شکل ہالینڈ کے بنے ریفریجریٹر سے یہودی ڈاکٹروں کی دی ہوئی امریکی دوائیں نکال کر دیں۔
حضرت نے فرانس کے جوسر سے تیار شدہ تازہ پھلوں کے جوس سے ادویات نگلیں اور پھر ہم عقیدت مندوں کو مخاطب کر کے ایمان افروز گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا، ’میرے بچو، مغربی قومیں اخلاق باختہ اور اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں، تم لوگ ان کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر دو۔‘
ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ ’قبلہ رہبرعالم، آپ کے ہر فرمان پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانا ہی ہماری نجات کا ضامن ہے، مگر ایک کنفیوژن تنگ کر رہا ہے کہ آخر انہی اخلاق باختہ قوموں کی جدید میڈیکل سائنس کی بدولت ہی تو خدا نے آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائی ہے۔ بحرِعلم اچانک جلال میں آ گئے۔
وہ ہمیں شعلہ بارنظروں سے گھورتے ہوئے اپنے مخصوص جلالی لہجے میں گرجے، ’ناہنجار، ہم اپنی قوت ایمانی کے مقابلے میں دنیا کی تمام جدید سائنس و ٹیکنالوجی کو جوتے کی نوک پررکھتے ہیں۔‘
ہم نے فوراً اپنا آئی فون بند کر کے جیب میں رکھا اور دل ہی دل میں کثرت سے توبہ استغفار پڑھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہم لوگوں کو شعور کی نعمت سے محروم رکھا، ورنہ زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ پیر و مرشد کی برکت سے ہمارا یہ کنفیوژن بھی دورہوا اور ہم نے ایک بات ہمیشہ کے لیے پلے سے باندھ لی کہ حیا سوز مغربی معاشروں کی بکینی کی طرح ان کی جدید سائنس و ٹیکنالوجی بھی کچھ نہیں ہوتی۔ زندگی کتنی آسان ہے۔