بنیادی سوال ہی یہ ہے کہ کیا صدارتی نظام کو کسی آئینی ترمیم کے ذریعے رائج کیا جا سکتا ہے اور کوئی ترمیم کسی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کر سکتی ہے؟
اس قانونی نکتے کا جواب آئینی ماہرین کی رائے میں نفی ہے۔ آئین میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کی جا سکتی جس سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہو جائے۔
سابق وزیر قانون بیرسٹر اعتزاز احسن بھی اسی دلیل کے قائل ہیں کہ پارلیمنٹ کو 1973 کے آئین کے تحت آئین میں ترمیم کا حق ہے، تنسیخ کا نہیں۔ سابق سینیٹر اور پیپلز پارٹی کے رہنما اپنے موقف کے دفاع میں کہتے ہیں کہ ’1973 کا آئین پارلیمانی ہے صدارتی نظام نہیں۔ اس لیے صدارتی نظام لانے کا مطلب یہ ہو گا کہ آئین کی تنسیخ کرکے ایک نئی عمارت کھڑی کریں۔‘ ان کے بقول یہ ایسا ہی ہے جیسے ’ایک عمارت کو گرا کر دوسری عمارت کھڑی کی جائے۔‘
ملک میں اس وقت پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے، جسے ایک قانون ساز اسمبلی نے تخلیق کیا اور 14 اگست 1973 کو اس کا نفاذ ہوا۔
ایک بات غور طلب ہے کہ جنرل ایوب خان نے صدارتی نظام اس وقت متعارف کروایا تھا جب ملک میں آئین یا دستور نام کی کوئی دستاویز نہیں تھی۔ جنرل ایوب خان کو صدارتی نظام متعارف کروانے میں اس لیے کوئی دقت یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ 23 مارچ 1956 میں نفاذ کردہ آئین ایوب خان نے منسوخ کر دیا اور اس کے بعد نیا دستور ہی تخلیق ہونا تھا اور اس وقت کی قانونی ٹیم نے صدارتی نظام کو ہی بہتر سمجھا۔
جنرل ایوب خان نے 62 کا آئین بنایا اور پھر خود ہی اس کی پاسداری نہیں کی۔ اپنے خلاف مظاہروں پر جنرل ایوب، صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو وہ آئینی تقاضے کے برعکس اقتدار سپیکر اسمبلی کو دینے کے بجائے اس وقت کے آرمی فوج کے سربراہ یحییٰ خان کے سپرد کر کے چلتے بنے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت کا عہدہ سنبھالا اور بعد میں 73 کا آئین تخلیق ہونے پر وزیراعظم بن گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو ملک کے واحد سیاست دان ہیں جو صدر اور وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہے۔
یہ بحث بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آٹھویں اور 17 ویں ترمیم کے بعد ملک کا آئین صدارتی بن گیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وزیراعظم کے اختیارات لے کر صدر مملکت کو زیادہ طاقتور کیا گیا ہے۔ آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آٹھویں اور 17 ویں ترمیم کے بعد یہ ضرور ہوا تھا کہ صدر مملکت اپنی مرضی سے اسمبلی کو تحلیل کر سکتے تھے اور آرمی چیف کو نامزد کرنے کا اختیار بھی وزیراعظم کے بجائے صدر مملکت کے پاس چلا گیا تھا۔
اس طاقتور اختیار کے باوجود ملک میں پارلیمانی نظام حکومت چلتا رہا، البتہ صدارتی اختیار کے تحت چار وزرائے اعظم یعنی محمد جونیجو، بےنظیر بھٹو کو دو مرتبہ اور ایک بار نواز شریف کو اپنی آئینی مدت مکمل کیے بغیر ہی گھر جانا پڑا۔
نواز شریف کا اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ آرمی چیف کے تقرر پر تنازع کھڑا ہوا اور اسحاق خان نے جنرل آصف نواز کے انتقال کے بعد جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
بعض سیاسی اور آئینی حلقوں کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر اس وقت کی سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو حکومت بحال کرانے کے لیے مہلت دے دی تھی۔
یہ دلیل دینے والے اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے مہلت دینے کے بعد ملک میں پارلیمانی نظام حکومت بحال ہوا اور پہلے ظفر اللہ خان جمالی، پھر چوہدری شجاعت حسین اور آخر میں شوکت عزیز وزیراعظم بنے۔
آئین کی سمجھ بوجھ رکھنے اس نکتے پر قائل ہیں کہ موجودہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو کسی ترمیم کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا آور آئینی ترمیم کرنے کی طاقت اس وقت کسی کے پاس نہیں ہے، چاہے کسی حکومت کے پاس اسمبلی اور سینیٹ میں کتنی اکثریت ہی کیوں نہ ہو۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی موجودہ آئین کی پیداوار ہے اور اس کے پاس بھی اسی آئین کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں۔
ملک میں صدارتی نظام حکومت متعارف کروانے کی بحث جس قدر دلچسپ ہے اسے رائج کرنا اتنا ہی مشکل کام ہے کیونکہ کسی جماعت کے منشور میں صدارتی نظام متعارف کروانے کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔
نئے آئین کے لیے ایک نئی قانون سازی اسمبلی کی ضرورت ہوگی۔ یہ خصوصی اسمبلی کن حالات میں اور کیسے وجود میں آتی ہے اس کا کھوج لگانے کی ضرورت ضرور ہے۔