گذشتہ ایک ہفتے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مختلف ذرائع سے کہیں واضح اور کہیں ڈھکے چُھپے الفاظ میں ملک میں صدارتی نظام لانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پرمختلف اراکین پارلیمنٹ سے بات کی تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسے ’مکمل قیاس آرائی‘ جبکہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اسے ’وفاق کے لیے تباہی‘ قرار دیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے منگل کو پارلیمنٹ میں ان کے چیمبر کے باہر انڈپینڈنٹ اردو نے صدارتی نظام پر ہونے والی چہ مگوئیوں کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: ’یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ اس حوالے سے آئین بڑا واضح ہے۔ آئین میں مجھے تو کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔‘
انہوں نے کہا: ’میری نظر یہ محض باتیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ تین ادوار سے تین جمہوری حکومتیں اور پارلیمانی نظام چل رہا ہے۔ حکومت مقررہ وقت مکمل کرکے ہی عوام کے سامنے جائے، اسی سے جمہوریت اور پارلیمانی نظام مضبوط ہوگا۔‘
اسی سوال پر سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’صدارتی نظام سوشل میڈیا پر نہیں آئے گا بلکہ اس کے لیے آئینی ترمیم کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’صدارتی نظام اس ملک میں نہیں چل سکتا۔ یہ اس ملک کو توڑ دے گا۔ ہم نے پہلے بھی صدارتی نظام آزمایا تھا اور 24 سالوں میں پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ اس لیے یہ ملک صرف پارلیمانی نظام میں ہی چل سکتا ہے۔‘
ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے صدارتی نظام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے تو کوئی اصل بات نظر نہیں آ رہی۔‘
انہوں نے کہا: ’ہر پانچ چھ سال بعد پاکستان میں نظام بدلنے کی بات کی جاتی ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’نظام کوئی خراب نہیں ہوتا، اس کو چلانے والےخراب ہوتے ہیں۔‘
ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے صدارتی نظام کے حوالے سے کہا کہ ’جب بھی کوئی حکومت ناکام ہونے لگتی ہے تو صدارتی نظام اور ایسے مباحثے اس لیے شروع کروائے جاتے ہیں تاکہ حکومت کی کارکردگی زیر بحث نہ آئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’70 سالوں میں پاکستان میں مختلف تجربے ہوئے اور جو تجربہ سب سے زیادہ چلا اور فیل ہوا وہ صدارتی نظام ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار بھی صدارتی نظام ہی تھے۔‘
احسن اقبال کا مزید کہنا تھا: ’یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر صدارتی نظام کے بعد ہم پارلیمانی نظام کی طرف واپس آئے ہیں، کیونکہ وفاق کی اکائیاں پارلیمانی نظام سے ہی ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب آئین میں مداخلت کی جاتی ہے۔‘
ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے ان افواہوں پر پارلیمنٹ میں بحث کی تجویزدیتے ہوئے کہا کہ ’اگر نظام بدلا گیا تو بہت شدید اثرات ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’اس سے ملکی اتحاد پر حرف آئے گا، اس لیے پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر ان افواہوں کو تقویت دینا ملک کے لیے نقصان دہ اور تباہی ہے۔‘
رانا ثنا اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’جو بھی یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں، وہ اس ملک کے لیے اچھا نہیں کر رہے۔ ‘
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے اسی سوال پر پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے تو یہ بتائیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو یہ بات کر رہے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہر تین ماہ کے بعد اس طرح کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے گی تو یہ غداری کے زمرے میں آئے گا۔‘