اونٹ عربوں کا قومی جانور ہے کیونکہ اس ملکِ وسیع کے صحراؤں، بیابانوں میں اس کے بغیر بار برداری ناممکن ہے۔ مگر عربوں کی دیہی ثقافت میں گدھوں کی اہمیت پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی گئی۔ آج میں آپ کو دو واقعات سنا کر یہ کمی پوری کیے دیتا ہوں۔
سب سے پہلے تو وضاحت کر دوں کہ میرا سعودی عرب جانے کا مقصد حج یا عمرہ نہیں تھا، فقط روزگار تھا۔ جب آپ کے پاس کام کرنے کا ویزا نہ ہو، جسے عرب لوگ اقامہ کہتے ہیں، تو آپ شہروں میں کام نہیں کر سکتے، فقط حج اور عمرہ کر سکتے ہیں، ورنہ ُشرطے پکڑ کر باندھ لیتے ہیں۔
عمرے کے ویزے پر آئے ہوئے بندے کو اگر کام کرنا ہے تو دیہی علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ یہاں عربوں کو سستی لیبر چاہیے ہوتی ہے، وہ ان سے غلاموں کی طرح کام لیتے ہیں۔
میں ان دنوں مدینہ کے مضاف الغابہ میں تھا۔ یہ علاقہ مدینہ سے 20 کلومیٹر شمال کی طرف ہے۔ یہاں میں ایک عرب کے کجھوروں کے باغ میں کام کرتا تھا اور روزانہ 60 ریال وصول پاتا تھا۔ یہاں میرے ساتھ بہت سی حبشی عورتیں بھی کام کرتی تھیں، جن کا کام کجھوروں کی صفائی اور چنائی وغیرہ وغیرہ تھا۔
میرے کام کا قصہ سن لیں۔ حبشنوں نے کجھوریں توڑکر ایک پہاڑ لگا دیا تھا، جسے مدینہ منتقل کرنے کے لیے ایسے ٹیلے عبور کرنا پڑتے تھے جہاں پہیے والی گاڑی نہ چلتی تھی۔
ٹیلے چونکے پتھریلے اور نوکدار بھی تھے اس لیے اونٹ بھی کام نہ دیتا تھا۔ اب ایک گدھا ہی تھا جو ہر جگہ فٹ ہو جاتا۔ مجھے یہ کجھوریں گدھوں کے ذریعے ٹیلوں سے پار لا کر وادی العقیق کی منڈی میں پہنچانا ہوتی تھیں، جہاں سے بڑی ٹرانسپورٹ پر شہر میں منتقل ہوتیں۔
میرے قبضے میں تین گدھے تھے اور یہ بہت گدھے تھے۔ آپ سمجھیں انڈین یا پاکستانی گدھے ان عربی گدھوں کی نااہل اولاد ہیں کہ ویسا گدھا پن اُن میں نہیں آ سکا۔ یہ زیادہ تر کجھوروں پر گزارا کرتے ہیں اور َجو بھی کھاتے ہیں اور کھا کھا کر اتھرے بے تحاشا ہوئے ہیں۔
میں نے پاکستان میں دیکھا تھا کہ ایک ہی کمھار ساٹھ، ستر گدھوں کو ہانکے لیے جاتا ہے۔ کسی گدھے کی مجال نہیں کہ غلط لائن پکڑے، کمھار جدھر چاہتا ہے انہیں پھراتا ہے۔ میں نے اسی غلط فہمی میں تین گدھے اپنے ذمے لے لیے، تین گدھوں کو قابو کرنا کون سا مشکل کام ہے۔
مگر اللہ اللہ، کچھ نہ پوچھیے، جیسے ہی کجھوریں لاد کر َمیں نے ان گدھوں کو آگے لگایا، میرا دل عذاب میں آیا۔ تھوڑی دیر تو شریفانہ چلے مگر باغ کی حدود سے باہر ہوتے ہی خرِ بےمہار ہو گئے۔
اگر ایک تیز دوڑتا تھا تو دوسرا سست رو چلتا تھا، اُسے ڈنڈا مار کر ہانکا تو وہ ایسا سرپٹ بھاگا کہ پہلے دونوں گدھوں سے کہیں آدھا میل آگے نکل کر عجیب سمت ُمڑ گیا۔ اُسے واپس ہانک کر لایا تو پہلے دونوں گدھوں کوغائب پایا، اب پہلے گدھے کو ایک پتھر سے باندھ کر دوسروں کی تلاش میں نکلا۔
کہیں دو ڈھائی میل دور پتھریلی راہوں اور اونچی نیچی گھاٹیوں میں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اور ان گدھوں کو لے کر پلٹا تو ایک عجیب تماشا دیکھتا ہوں کہ پہلا گدھا کجھوروں سمیت زمین پر لیٹا استراحت فرما رہا ہے اور کجھوریں یتیموں کی طرح ادھر ادھر بکھری ہوئی ہیں۔
طبیعت ایسی بے زار ہوئی کہ سب کچھ وہیں چھوڑ کر بھاگ جانے کو جی چاہا، مگر کم از کم عربوں میں بھاگ جانے کا تصور ممکن نہیں کہ پاسپورٹ کام کرانے والا عربی اپنے قبضے میں لے چکا۔ خیر اب سوئے ہوئے گدھے کو بمشکل تمام جگایا، کجھوریں مکرر لادیں اور بڑی احتیاط سے تینوں کو لے کر پھر روانہ ہوا۔
غرض اسی وبال میں جب کجھوریں اپنے اصلی مقام تک پہنچا کرمیں پانچ گھنٹے بعد لوٹا تو عربی بدو نے گالیاں دینا شروع کر دیں کہ ’اتنے میں تو تین چکر لگ جاتے ہیں، تم نے سارا دن غارت کر دیا۔ اگر اب دیر ہوئی تو مزدوری کاٹ لوں گا اور ُشرطوں کے حوالے کر دوں گا۔‘
خیر بھائی صبح سے رات گئے تک کوئی چارچکر لگائےاور چالیس پچاس کلومیٹر پیدل جان تھکا کر اور نڈھال ہو کر وہیں باغ میں پڑ رہا۔ آدھی رات تک حبشی عورتیں آگ پر ُدنبہ رکھ کر رزمیں گاتی رہیں اور طبلے پیٹتی رہیں اور اُس کے بعد گوشت کھاتی رہیں۔ رات کچھ نہ کچھ رومان انگیز ہو گئی۔
ایک دن کا قصہ ہے کہ میں ایک جگہ ٹیلوں میں کجھوروں سے بھرے گدھے لیے جا رہا تھا کہ ٹیلوں کے درمیان گھری ہوئی چھوٹی سی وادی میں پہنچا تو ایک گدھے کو اللہ جانے کیا جوش آیا، سر پٹ دوڑ لگا دی اور ایسی چال سے بھاگا کہ سمجھیے گدھے کی کھال میں چیتا چھپا ہے۔
وہیں سبزی کی بہت بڑی دکان تھی اور نہایت خوبصورت اور ہری بھری۔ دکان پر ایک عربی اور اس کا کمسن لڑکا جبہ پہنے، سر پر گول چکر باندھے بیٹھے تھے۔ گدھا کجھوروں سمیت اسی دکان میں گھس گیا۔
میں اُسے روکتا رہ گیا مگر گدھا نہ ٹلا، سبزی کی ٹوکریوں اور شیشے کے خانوں کو ایسے روند ڈالا جیسے بدمست سانڈ آئینہ خانے میں گھس جائے۔ اس دوران خود گدھے پر لدی کجھوریں کنچوں کی طرح بکھر گئیں اور لڑھکتی پھرتی تھیں۔
اب گدھے نے ہینکنا بھی شروع کر دیا جیسے جنگ کا نقارہ بجا رہا ہواور ایک پَل میں عربی کی دوکان کو میدانِ کارزار بنا دیا۔
کسی سبزی کی شکل پہچانی نہ جاتی تھی اور شیشے ٹوٹ پھوٹ کر کرچیاں ہو گئے۔ مفت کا تماشا کسے برا لگتا ہے، آن کی آن میں آس پاس کے لوگ بھی اکٹھے ہو گئےاور ہیت کذائی پر ہنسنے لگے۔ میں ایک کونے میں ڈرا سہما ایسے کھڑا تھا جیسے سزائے موت کا قیدی پھانسی چڑھنے والا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گدھے نے جب ساری دکان تلپٹ کر دی تو آرام سے نکل کے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ ایک دفعہ تو یقین جانیے مجھے ایسے لگا جیسے یہ دکان دار اور گدھا آپس میں پرانی عداوت رکھتے ہیں جس کا گدھے نے انتقام لے لیا ہے۔ جیسے ہی گرد بیٹھی اور بدو کو ہوش آیا تو اس نے فوراً میرے گریبان پر ہاتھ رکھ دیا اور پل کی پل میں مجھے باندھ لیا۔
بازار میں تماشا دیکھنے والے سب لوگ فقط تماشا دیکھنے میں مصروف رہے۔ یاد رکھیں اگر کوئی عرب کسی غیر عربی کو باندھ رہا ہو تو تماشائی صرف باندھنے میں مدد کرتے ہیں اور یہ بھی یاد رہے، چاہے آپ اپنے ملک کے وزیر اعظم ہیں، عربوں میں ایک بدو بھی آپ کو باندھ سکتا ہے۔
خیر بندھنے کے بعد میں نے دکاندار کو اپنی درد بھری کہانی سنائی۔ اُس نے ُسنی اور کہا اب تو بیٹا یہ تینوں گدھے اور تم ایک، چاروں میرے غلام ہو۔
تو ہوا یہ کہ وہاں سے ایک آدمی باغ کو روانہ کیا گیا کہ جا کر باغ کے مالک کو سب واردات بتائے اور کہے کہ نقصان کا ازالہ کر کے بشمول میرے چاروں گدھوں کو واپس لے جائے۔
وہ مالک آیا اور کہیں شام تک جا کر مسئلہ حل ہوا۔ اللہ جانے میرے والے بدو نے دوکاندار بدو کو کتنا جرمانہ بھرا، پھر مجھے اور اپنے گدھوں کو چھڑایا۔ باہر نکل کر اس نے تین دن کی مزدوری کاٹ کر مجھے 240 ریال تھمائے اور چلتا کیا کہ عربی گدھوں کو قابو کرنا تیرے بس کا روگ نہیں۔
تب میں شام کو مسجد نبوی میں آیا اور سستے میں جان چھوٹنے کا شکر فرمایا اور سوچا واقعی عربی گدھے سنبھالنا آسان کام نہیں۔ اسی قصے کی طرز کا ایک دوسرا واقعہ بھی سن لیجیے۔
مجھے جف کے علاقے میں کچھ دن کے لیے کام مل گیا۔ یہ جگہ دمام سے سو میل کے فاصلے پر تھی اور تیل کی ایک کمپنی یہاں اپنے دفاتر بنا رہی تھی۔
یہاں پچاس میل تک ارد گرد آبادی کا نشان تک نہیں تھا۔ کام کرنے والوں کی 80 فیصد نفری یوگوسلاویہ کے لوگوں پر مبنی تھی۔ یہ لوگ بہت اونچے لمبے، طاقتور اور سخت جان تھے۔
ہر طرح کا گوشت کھاتے تھے اور گدھے کے گوشت سے خاص رغبت رکھتے تھے۔ مگر گدھاعربوں میں بہت مہنگا ہے اور کھانے کے لیے نہیں۔ یعنی ایک عام سا گدھا بھی تین ہزار ریال سے کم نہیں۔
ایک دن دوپہر کا وقت تھا، ایک گدھا کہیں سے بھٹکتا ہوا ادھر آ نکلا۔ اسے دیکھ کر یوگوسلاویوں کے منہ میں پانی بھر آیا۔ سب نے ایک دم حملہ کیا اور گدھا پکڑ لیا۔ مجھے اُن کی زبان آتی تھی، نہ انہیں میری۔ پھر بھی کچھ اشاروں کنایوں سے اُسے سمجھایا کہ یہاں گدھا بہت معزز جانور ہے اور آپ لوگوں سے زیادہ قیمت رکھتا ہے، اسے مت کھائیں، مگر اتنے میں گدھے کی کھال کھینچی جا چکی تھی۔
رات اسے ڈنر میں روسٹ کر کے کھایا گیا اور جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کھال اور ہڈیاں گڑھا کھود کر دفن کر دیں۔
اگلے دن سہ پہر کے وقت کچھ عرب دو گاڑیوں پر گدھے کو کھوجتے کھوجتے ادھر آ گئے۔ بعض جگہ بہت ریت تھی اور قدموں کے نشان نہیں رہتے تھے مگر عربوں جیسے کھوجی آپ کو دنیا بھر میں کسی اور جگہ نہیں ملیں گے۔
انہوں نے ہر بات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنا دیا کہ ہمارا گدھا یہاں سے آگے نہیں گیا، بتاؤ کہاں ہے۔ ایک گھنٹے بعد پولیس بھی پہنچ گئی۔ ان کے پاس دو ُکتے تھے۔ کتوں نے پانچ ہی منٹ میں ہر طرف سے سونگھ کر ایک جگہ منتخب کر دی۔ جگہ کھودی گئی تو گدھے کی کھال اور ہڈیاں برآمد ہو گئیں۔ لیجیے حضرت اب یوگو سلاویوں کے لیے نہ جائے رفتن تھی نہ پائے ماندن۔
کمپنی انچارج کو فوراً حاضر ہونے کا پیغام دیا۔ دو گھنٹے میں وہ وہاں پہنچ گیا۔ حکم دیا گیا کہ گدھے کی قیمت جرمانے کے ساتھ ادا کی جائے جو ایک لاکھ ریال بنتی ہے۔ اس کے علاوہ گدھا کھانے والے تمام یوگوسلاویوں کو واپس بھیجا جائے اور نیا عملہ بھرتی کیا جائے۔ کمپنی انچارج کی کیا مجال کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرتا۔