’مشینیں کباڑ بن گئیں‘: خیبر کے کرش پلانٹ 13 سال بعد کھل گئے

سکیورٹی خدشات کے باعث 2009 سے ضلع خیبر میں بند 80 کرش پلانٹس کو حکومت نے واپس کھولنے کی اجازت دے دی ہے، مگر پلانٹ مالکان کا کہنا ہے کہ ان کے آلات ناکارہ ہوچکے ہیں اور بحالی کے لیے کافی سرمایہ نہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں 13 سال بعد کرش پلانٹس کو کھل دیا گیا ہے، تاہم ان کے مالکان کا کہنا ہے کہ اب ان کی مشینیں ناکارہ ہوچکی ہیں اور بحالی پر خرچہ بھی بڑھ گیا ہے۔

ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں کرش پلانٹس کو 2009 میں بند کیا گیا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں قبائلی اضلاع کے تمام قبیلے، عمائدین علاقہ، سیاسی جماعتیں، اور عوام نے مل کر چھ دن تک جمرود میں پاکستان افغانستان شاہراہ کو احتتجاً بند کیے رکھا، جس کے بعد ان کی بحالی ہوئی۔

حکومت نے ان کا مطالبہ مانتے ہوئے جنوری میں تمام کرش پلانٹس کو دوبارہ کام کرنے کی اجازت دے دی تاہم اس مقصد کی خاطر انہیں متعلقہ محکموں سے این او سی حاصل کرنے کا کہا گیا۔

تاہم، کرش پلانٹس کے مالکان کا کہنا ہے کہ 13 سالوں میں کرش پلانٹس کی مشینیں نہ صرف ناکارہ ہوچکی ہے بلکہ انہیں دوبارہ لگوانے کے لیے ایک کروڑ 26 لاکھ سے زائد کا خرچہ آتا ہے۔

ان ہی میں سے ایک ابراہیم آفریدی بھی ہیں، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب 2009 میں پہلا آپریشن صراط مستقیم شروع ہوا تو علاقہ مکین کو کہا گیا کہ کچھ دنوں میں انہیں دوبارہ کام کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ تاہم ابراہیم کے مطابق ایسا نہ ہوسکا اور دن سالوں میں بدل گئے۔

’ہماری مشینوں کے کئی پرزے نشہ کرنے والوں اور چوروں نے اونے پونے داموں میں بیچ ڈالی۔ کارخانوں کی آبادی کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ اور اب یہ کارخانے ایک کباڑ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔‘

ابراہیم نے بتایا کہ جو لوگ کرش پلانٹس کے مالکان تھے اور جن کے مہینے کی آمدن دو لاکھ سے زائد تھی وہ علاقے میں دہشتگردی کے سبب جلوزئی کیمپ میں مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

’اگرچہ کئی سال بعد ہماری اپنے علاقوں میں واپسی ہوئی لیکن ہمیں حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔ نوجوان منشیات کے عادی بن گئے۔ علاقے میں بےروزگاری اور خراب مالی حالات کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابراہیم آفریدی نے مزید بتایا کہ 2007 میں جو کرش پلانٹ انہوں نے تقریباً 45 لاکھ روپے میں لگایا تھا وہ آج ایک کروڑ 26 لاکھ سے زائد کے خرچے پر بنتا ہے۔

’اس پلانٹ کو کھولنے کے لیے حکومت سے لیز حاصل کرنی ہوتی ہے جو کہ ہم نے ماضی میں حاصل کی تھی اور کرش پتھروں کے فی ٹرپ پر اس زمانے میں ہم دو سو روپے دیتے تھے۔ اب حکومت نے تقریباً چار پانچ محکموں سے این او سی حاصل کرنے کا کہا ہے جس سے مزید کئی مہینے ضائع ہوں گے۔‘

ابراہیم آفریدی نے کہا کہ چونکہ وہ پچھلے کئی سالوں سے اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے اور کرش پلانٹس کے مالکان کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں، لہذا ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں پلانٹس فی الحال چلانے کی اجازت دی جائے جب کہ این او سی حاصل کرنے کے لوازمات وہ ساتھ ساتھ پورا کرتے رہیں گے۔

انہوں نے اور علاقے کے دوسرے لوگوں نے حکومت سے فنڈز کی بھی درخواست کی تاکہ ان کو مالی اخراجات چلانے میں ریلیف مل جائے۔

باڑہ قبیلہ شلوبر کے ایک اور رہائشی جدران آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ بھی 2009 سے قبل ایک عدد کرش پلانٹ کے مالک تھے اور سینکڑوں مزدوروں کو اپنے ساتھ کام پر لگایا ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ 13 سال ان کا پلانٹ بند رہنے کی وجہ سے وہ مالی لحاظ سے اتنے کمزور ہوئے کہ وہ چوکیدار کی نوکری کرنے پر مجبور ہوئے۔

’اگرچہ حکومت، ملٹری اور انتظامیہ کی مہربانی سے پلانٹس دوبارہ کھل گئے ہیں لیکن میرے پاس دوبارہ مشینیں لگوانے اور ان کو چلانے کے لیے اتنی رقم نہیں ہے۔ جو مشینیں تھیں وہ نشے کے عادی افراد بیچ کر کھا چکے۔‘

کرش پلانٹس کو کیوں بند کیا گیا؟

سابقہ فاٹا کے علاقے تحصیل باڑہ میں 2009 میں 80 کرش پلانٹس کو بوجوہ سکیورٹی خطرات کے بند کیا گیا تھا، کیونکہ سٹون کرشنگ میں ڈائنامائٹ کا استعمال ہوتا ہے۔ کرش پلانٹ پہاڑ سے حاصل کیے گئے پتھروں کو مشینیوں کے ذریعے مختلف حجم میں کاٹتے ہیں جو پھر عمارتوں، سڑکوں اور کئی دیگر کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس ڈائنامائٹ کو لانے کے لیے کرش پلانٹس کے مالکان باقاعدہ طور پر پاکستان آرڈینینس فیکٹری کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرکے حکومت سے اس کا لائسنس حاصل کرتے ہیں۔ معاہدے میں پلانٹس مالکان ثابت کرنے کے پابند ہوتے ہیں کہ جو ڈائنامائٹ وہ لے کر گئے ییں وہ اسی کام میں استعمال ہوں گے۔

تاہم، بعد ازاں یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ یہ ڈائنامائٹ ان پلانٹس سے نکال کر تخریب کاری میں استعمال کیا جا رہا تھا۔

جس زمانے میں ان پلانٹس کو تخریب کاری اور دہشت گردی کے تناظر میں بند کیا گیا اسی دور سے ہی ماحولیاتی اداروں بھی ان پر تنقید کرتے تھے ان کو ماحول اور انسان دشمن قرار دتے تھے۔

بعد ازاں جب اس علاقے کے لوگوں نے علاقے میں خراب معاشی حالات کے سبب پلانٹس کھولنے کے لیے آواز اٹھائی بھی تو یہ کہا جاتا رہا کہ ان پہاڑوں کو بہت حد تک ختم کیا گیا ہے اور اب اگر 80 پلانٹس کو دوبارہ کھول دیا گیا تو مزید لوگ بھی اپنے پلانٹس لگانا چاہیں گے جس سے اس علاقے کے پہاڑ بالکل ہی ختم ہوجائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان