ایک نئی تحقیق کے مطابق ماوں کی اکثریت اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ خود کے لیے بھی وقت نکال کر ورزش کرنے میں برا محسوس کرتی ہے۔
ایک ہزار سے زیادہ ایسی خواتین سے سروے کیا گیا ہے جن کے بچوں کی عمر چھ برس سے کم تھی۔
ان میں سے تین چوتھائی ( 77 فیصد ) سے زیادہ ماوں کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک ورزش کرنا چاہتی ہیں، جبکہ 61 فیصد نے تسلیم کیا انہیں اپنے لیے وقت نکالنے میں برا محسوس ہوگا۔
یہ سروے برطانیہ میں کھیلوں سے وابستہ تنظیم سپورٹ انگلینڈ کی جانب سے کرایا گیا ہے جو اس کی ’یہ لڑکی کر سکتی ہے‘ مہم کا حصہ تھا۔ سروے کے دوران یہ بھی پتا چلا ہے کہ ماوں نے ورزش نہ کرسکنے کی جو سب سے بڑی وجہ بتائی وہ وقت کی کمی تھی۔
سوال کرنے پر دس میں سے تین ماوں نے کہا کہ ان کے پاس ہر روز ایک گھنٹے سے بھی کم وقت فرصت کا ہوتا ہے، جبکہ پانچ میں سے ایک ماں کا کہنا تھا کہ ان کے چست رہنے میں خرچہ بڑی رکاوٹ ہے۔
17 فیصد ماوں نے کہا کہ وہ اپنی ورزش کو ترجیح دیتی ہیں۔
سپورٹ انگلینڈ کی انسائٹ ڈائریکٹر لیسا اوکیف کے مطابق ایسے بچے جن کے والدین چست ہوتے ہیں–خاص طور پرمائیں–ان بچوں کے چست ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ’ایسے بچے جنہیں کم عمری اور اس کے بعد کھیلوں اور جسمانی سرگرمی کا مثبت تجربہ ہوتا ہے ان میں اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے وہ زندگی میں آگے چل کرخود چست رہنے کو ترجیح دیں گے۔‘
لیسا نے کہا: ’ہم سب کو اس حوالے کردار ادا کرنا ہوگا کہ مائیں زندگی کے دوسرے معاملات کی طرح اپنے آپ کو جسمانی طور پربھی چست رکھنے کو ترجیح دینے میں عار محسوس نہ کریں۔‘
ماہر نفسیات ایما کینی کہتی ہیں یہ تحقیق اپنی ذات کا خیال رکھنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’بطور ماں آپ سمجھتی ہیں کہ دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنا آپ کی بڑی ترجیح ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کو اپنا خیال رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ میں وہ توانائی یقینی طور پر موجود ہو جو ان لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے ضروری ہے جن سے آپ کو پیار ہے۔‘
اس کے قبل ویل فارمیسی کے زیر اہتمام ایک تازہ سروے کے مطابق برطانیہ میں ماوں کی اکثریت اپنی صحت داو پر لگا رہی ہے کیونکہ وہ ’اتنی مصروف ہوتی ہیں‘ کہ انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے وقت نہیں ملتا۔
رائے معلوم کرنے کے ایک جائزے کے دوران پتا چلا ہے کہ 69 فیصد ماوں کے لیے اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات نمٹانا مشکل کام ہے۔ 84 فیصد ماوں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ بیماری کے باوجود معمول کے فرائض انجام دیتی ہیں کیونکہ انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے وقت نہیں ملتا۔
سروے میں آدھی سے زیادہ خواتین نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ وہ اتنی بیمار بھی ہو چکی ہیں کہ ان کے لیے طبی نگہداشت ضروری ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں گئیں۔
ویل فارمیسی کے ساتھ بطور ڈیجیٹل فارماسسٹ وابستہ ٹین کورکے مطابق انہوں نے گاہگوں سے اکثر سنا ہے کہ جب آپ کے بچے ہوں خاص طور دودھ پیتے یا اس سے کچھ بڑے تو آپ کو گھر سے نکلنے کی کوشش میں کئی گھنٹے گزر جانے کا پتا ہی نہیں چلتا اور آسان ترین کاموں کو کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’خاندان اور بچوں کی فلاح و بہبود بلاشبہ ہم سب کی ترجیح ہونی چاہییے۔ دوسری جانب زندگی کے دوسرے معاملات جیسا کہ ڈاکٹر کے پاس جانا، ادویات کا نسخہ لینا، رحم کے سرطان کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے ملاقات کے وقت کا حصول اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی بھی زندگی کی گاڑی کو چلتا رکھنے کے لیے اتنے ہی ضروری ہیں۔‘