بلوچستان میں جاری شورش کے بارے میں دو متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق موجودہ شورش بیرونی طاقتوں کی آشیرباد پر کی جا رہی ہے اور بلوچ نوجوانوں کو آزاد بلوچستان کا جھانسہ دے کر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس رائے کے مطابق موجودہ شورش کے نہ صرف اہداف غیر حقیقی ہیں بلکہ بلوچ پسندوں کے پاس ان کے حصول کے لیے وسائل بھی دستیاب نہیں ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ریاست پاکستان اس شورش سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
دوسری رائے اس کے برعکس ہے: بلوچستان میں شورش کو ایک حقیقی سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کو نظرانداز کرنے سے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہوا ہے اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو مزید ابتری کا خدشہ موجود ہے۔
اس رائے کے مطابق بلوچستان کی سیاسی محرومیوں، معاشی استحصال اور جبری گمشدگیوں نے شدت پسندوں کو سیاسی خودمختاری سے علیحدگی پسندی کی طرف دھکیلا ہے۔ خطے کی بدلتی سیاسی صورت حال، خصوصاً امریکہ کی افغانستان میں موجودگی اور انخلا نے بھی بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریکوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
ان دونوں آرا میں وزن ہے لیکن حقیقت ان دونوں متضاد خیالات کے درمیان کہیں موجود ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان پاکستان میں ترقی کے لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ اسی طرح سے بلوچستان کے معاشی استحصال اور سیاسی محرومیوں میں بیرونی طاقتوں کا کردار بھی ایک اٹل حقیقت ہے جنہوں نے مالی و سیاسی معاونت سے بلوچستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے میں کوںٔی کسر نہیں چھوڑی۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ایک سیاسی حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے، جو صوبے کے پیچیدہ مسئلے کے تمام پہلوؤں سے جامع طور پر نمٹ سکے۔
درحقیقت شورش زدہ علاقوں میں طاقت کا استعمال ایک جامع سیاسی حکمت عملی کا جزوی حصہ ہوتا ہے۔ طاقت کا استعمال پر تشدد کارروائیوں کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ سیاسی حکمت عملی سے پرامن جدوجہد کو راستہ دیا جاتا ہے تاکہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔
بلوچستان میں ہونے والی حالیہ پر تشدد کارروائیوں، خاص طور پر کچھ، پنجگور اور نوشکی میں ہونے والے حملے بلوچستان میں تشدد کی ایک نئی لہر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان حملوں میں نہ صرف شدت پسندوں کی حکمت عملی میں ایک واضح فرق نظر آیا بلکہ جو ہتھیار استعمال کیے گئے وہ بھی ان کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
مثلاً ان حملوں میں بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے حملہ آوروں نے شرکت کی۔ یہ رجحان بلوچ شورش میں پچھلے چند برس کے دوران آیا ہے۔ مجید بریگیڈ 1970 کی دہائی میں قائم کی گئی تھی لیکن اس کی کارروائیاں 2018 میں دوبارہ سے دیکھنے میں آئی تھیں، جب بی ایل اے کے کمانڈر اسلم اچھو نے اس کو دوبارہ منظم کیا تھا۔ اس کے بعد چینی قونصل خانہ، پاکستان سٹاک ایکسچینج، پی سی ہوٹل گوادر، چینی انجینیئر کی بس پر حملے جیسے واقعات میں مجید بریگیڈ کے حملہ آوروں نے حصہ لیا۔
اسی طرح نوشکی میں فرنٹیئر کور پر حملے میں بھی بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اسی طرح کے حملے تحریک طالبان پاکستان یا لشکر جھنگوی جیسے مذہبی شدت پسند کیا کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پہلو نہ صرف بلوچ شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کے ٹی ٹی پی سے بھی تعلق استوار ہوئے ہیں۔ اس بات کا اشارہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بھی دیا تھا۔
اگر بلوچستان میں موجودہ پرتشدد کارروائیوں کو ایک نئی لہر یا فیز کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا، تاہم جہاں سکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ سیاسی راستہ اپنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ناراض بلوچوں کو سیاسی دھارے میں لایا جا سکے۔
بنیادی طور پر بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے جس میں سالہا سال کے بگاڑ نے سکیورٹی مسائل کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جب تک سکیورٹی حکمت عملی کو ایک جامع سیاسی ڈاھانچے کے نیچے نہیں لایا جاتا اور ایک سیاسی عمل نہیں شروع کیا جاتا، بلوچستان کے تنازع میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔
بلوچستان کو بلاتعطل ایک سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جو مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
بلوچستان میں جاری شورش کا جنوبی ایشیا میں سری لنکا کی تامل مزاحمت کاری یا نیپال کی ماؤسٹ شورش سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ سری لنکا میں تامل جنگجوؤں کو طاقت کے بے دریغ استعمال سے کچل دیا گیا، جبکہ نیپال میں ڈائیلاگ اور طاقت دونوں کا استعمال کیا گیا جس نے ایک سیاسی حل کی راہ ہموار کی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان کی حالیہ شورش ماضی میں اٹھنے والی شورش کی لہروں 1959، 1948-1958، 1977 - 1973، 1969-1963 سے زیادہ طویل ہے۔ اس سے بڑھ کر گذشتہ ادوار میں شورش بلوچستان کے چند حصوں تک محدود تھی اور اس میں قبائلیت کا عنصر نمایاں تھا، جبکہ موجودہ شدت پسندی بلوچستان کے تمام علاقوں تک پھیل گئی ہے اور قبائلیت سے نکل کر اب پڑھے لکھے متوسط طبقوں میں سرایت کر چکی ہے۔
ماضی کی شورشیں سیاسی خودمختاری کے گرد گھومتی تھیں جبکہ حالیہ لہر علیحدگی پسندی کے رجحان کی طرف مائل ہے۔
پچھلے 18 سالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طاقت کا بے دریغ استعمال اور سیاسی حکمت عملی کا فقدان بلوچستان کے مسئلے میں مزید بگاڑ ہی پیدا کرے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ایک سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے جو ایک کل جماعتی کانفرنس سے شروع ہو جس میں تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
دہائیوں پر محیط اس مسئلے کا کوئی فوری حل مشکل ہے، اس لیے تمام فریقین کو صبر اور تحمل سے مذاکرات کا راستہ اپنانا پڑے گا۔
آخر بلوچستان پاکستان کا ایک اندرونی سیاسی مسئلہ ہے جو کچھ عاقبت نااندیشوں کی مہم جوئی کی وجہ سے بگاڑ کا شکار ہوا۔ آگے جا کر کئی غیر ملکی طاقتوں نے اس کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کے اندرونی سکون اور امن کو سبوتاژ کیا۔ اس لیے جب تک اندرونی مسئلہ انتشار کا شکار رہے گا، اس کے بیرونی اثرات کو ایک حد تک کم کیا جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
کالم نگار عبدالباسط خان سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے بطور محقق منسلک ہیں۔