پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہ چند روز قبل دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی خونریز جھڑپ کے بعد اتوار کو دوبارہ کھول دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان اور پاکستان کی فورسز کے درمیان چمن بارڈر پر ہونے والی اس غیر معمولی جھڑپ میں تین افراد مارے گئے تھے۔
گذشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جب کہ اسلام آباد کا شکوہ ہے کہ پاکستان مخالف عسکریت پسند گروپس نے افغان سرزمین سے ملک میں حملے تیز کر دیے ہیں۔
طالبان حکومت عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنی سرزمین استعمال کرنے کے پاکستان کے الزامات کی تردید کرتی ہے لیکن وہ 27 سو کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کے اسلام آباد کے اقدام کی مخالفت بھی کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی پیرا ملٹری فورس کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا: ’سرحد کو تمام سرگرمیوں کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔‘
سکیورٹی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ سرحدی گزرگاہ کھولنے کا یہ اقدام پاکستانی حکام اور افغان صوبے قندھار کے طالبان گورنر کے درمیان ’کامیاب مذاکرات‘ کے بعد لیا گیا ہے۔
قندھار کے گورنر کے ترجمان محمود اعظم نے بھی سرحدی گزرگاہ کھلنے کی تصدیق کی ہے۔
فریقین نے جمعرات کو چمن سپن بولدک سرحد پر ہونے والی جھڑپ کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا جس کے بارے میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا گیا تھا۔
اس سرحدی گزرگاہ سے روزانہ دونوں جانب سے ہزاروں افراد گزرتے ہیں جن میں تاجر، پاکستان میں علاج کی غرض سے داخل ہونے والے افغان مریض اور رشتے داروں سے ملنے والے افراد شامل ہیں۔