’ہم پاکستان آ گئے تھے کیونکہ افغانستان میں لڑائی ہو رہی تھی۔ اب وہاں امن ہو چکا ہے اس لیے ہم پاکستانی حکومت سے کہتے ہیں کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ ہمارے خاندان انتظار کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ سرحد پار کریں۔ لوگ واپس جانا چاہتے ہیں لیکن وہ سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔‘
چمن بارڈر پر موجود افغان شہری محمد نبی نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی ہے کہ انہیں سرحد سے گزرنے دیا جائے کیونکہ اب افغانستان میں ’جنگ نہیں ہے اور امن قائم ہو چکا ہے۔‘
واضح رہے کہ چھ اگست کو طالبان نے چمن کے مقام پر سپین بولدک سرحد بند کر دی تھی جس سے دونوں اطراف ہزاروں افراد پھنس کر رہ گئے تھے، خصوصاً پاکستان میں چمن سرحد پر موجود افغان شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بعدازاں دو ہفتے قبل طالبان افغان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پاکستانی حکام کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد چمن کے مقام پر پاکستان افغان بارڈر باب دوستی کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم یہ سرحد دن میں کچھ گھنٹوں کے لیے کھولی جاتی ہے، لیکن افغان شہریوں کا مطالبہ ہے کہ سرحد کھولے جانے کے دورانیے میں اضافہ کیا جائے۔
چمن سرحد پر موجود افغان شہری مولوی شعیب کا کہنا تھا: ’جب مسلمان مشکل میں تھے تو بمباری اور سختیوں کے دوران ہم نے افغانستان چھوڑا۔ اب الحمداللہ حالات معمول پر ہیں، اس لیے ہم افغان واپس جا رہے ہیں۔ ہم نے سرحد پر کچھ انتظامات کیے ہیں۔ ہم پر رحم کریں۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہم کیا کریں گے، ہمیں سرحد کے دونوں طرف مسائل کا سامنا ہے۔ ہم پر رحم کریں اور ہمارے لیے سرحد کھول دیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور افغان شہری ولی الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’میں غزنی واپس جا رہا ہوں۔ اب وہاں امن ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم اپنے وطن واپس جا رہے ہیں۔ وہاں جانا اور رہنا کہیں بہتر ہے۔‘
پاکستانی بارڈر پر افغانستان جانے کے ایک اور خواہشمند افغان شہری محمد حسن کے مطابق: ’ماضی میں وہاں لڑائی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اب حالات معمول پر آ چکے ہیں۔ آپ ہمارا سامان دیکھ رہے ہیں۔ لوگ انتظار میں ہیں۔ سرحد پر اکیلی کھڑی خواتین انتظار کر رہی ہیں۔ لوگ بےچینی کا شکار ہیں۔ ہماری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ ہمارے لیے سرحد کھول دیں کیونکہ حالات ٹھیک ہیں۔ لوگ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ لڑکیاں اور خواتین سرحد پر تنہا ہیں اس لیے سرحد ہمارے لیے کھول دی جاتی ہے تو ہم شکر گزار ہوں گے۔‘