کیسری لبادے میں ملبوس سخت گیر راہب سے سیاسی رہنما بننے والے یوگی آدتیہ ناتھ جمعرات کو بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں ریاستی انتخابات میں اپنی فتح کے بعد جب لکھنؤ کے پنڈال میں داخل ہوئے تو ان کے حامیوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا۔
آدتیہ ناتھ، جو اتر پردیش میں 37 سالوں کے دوران دوسری مدت کے لیے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والے پہلے رہنما ہیں، نے اپنی جیت کی خوشی ہولی سے قبل ہی گُلال (ہولی کے تہوار پر لگایا جانے والا رنگ) لگا کر سٹیج پر کھڑے ہوکر اپنے وزرا کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اتحاد کا مظاہرہ کر کے منا لی تھی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 22 کروڑ آبادی والی اس ریاست کی 403 میں سے 255 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اتر پردیش کی آبادی برازیل کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے جہاں بی جے پی نے حکومت سازی کے لیے درکار اکثریت حاصل کر لی ہے۔ تاہم اس بار اس کی نشستوں کی تعداد پانچ سال قبل انتخابات کے مقابلے میں 57 سیٹس کم ہے۔
اس فتح کے بعد ریاست کے بڑے شہروں میں جشن منایا گیا جہاں کارکنان بلڈوزر پر سوار ہوکر اپنے پارٹی دفاتر پہنچے اور ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ مذہبی نعرہ حالیہ برسوں میں بی جے پی کی فتح کے جلسوں کا نشان بن چکا ہے۔
اس جش کے دوران آدتیہ ناتھ کے کردار کی تعریف میں دوسرے نعرے بھی سنائی دیے مثلاً ’یو پی میں رہنا ہے تو یوگی، یوگی کہنا ہے۔‘
یہ اس نعرے کی ایک جدید شکل ہے جو آدتیہ ناتھ کے حامی 1998 میں ان کے قانون ساز اسمبلی کے رکن کے طور پر منتخب ہونے کے بعد سے لگا رہے ہیں۔ یوگی اس کے بعد سے مسلسل پانچ بار جیت چکے ہیں۔
اتر پردیش میں بی جے پی کی حکمرانی کے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران آدتیہ ناتھ نے مسلسل ایسی پالیسیوں پر عمل کیا ہے جو ان کی ہندو قوم پرستی کی بنیاد ہوں۔
انہوں نے بطور وزیراعلیٰ الہ آباد اور مغل سرائے جیسے شہروں کے ناموں کو پریاگ راج اور دین دیال اپادھیائے جیسے ہندو ناموں سے تبدیل کر دیا ہے۔
یوگی حکومت نے ریاست میں ہندو مت میں مقدس سمجھے جانے والے جانور گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگا دی اور ’لو جہاد‘ کے خلاف ایک قانون بھی متعارف کرایا ہے۔
’لو جہاد‘ دائیں بازو کے ہندوؤں کے نزدیک ایک سازشی نظریہ ہے جس کے مطابق مسلمان مرد ہندو خواتین کو بہکا کر ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
آدتیہ ناتھ کی فتح اس وقت سامنے آئی ہے جب بھارت میں سیکولرازم کے زوال اور ہندوتوا کی سیاست کے عروج کے خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی۔ اس کے علاؤہ کرونا کی ہولناک وبا اور کسانوں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود بی جے پی کو یہ جیت ملی ہے جب کہ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کے خلاف جائے گا۔
گذشتہ سال کرونا کی وبا سے بھارت کا صحت کا نظام ڈھیر ہو گیا تو آدتیہ ناتھ کی اس ریاست کے دریاؤں میں لاشیں تیرتی ہوئی دیکھی گئی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان انتخابات میں فتح کو جرائم کے خلاف آدتیہ ناتھ کے کریک ڈاؤن اور ہندو قوم پرستوں میں ان کی مقبولیت کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اتر پردیش کی کل آبادی میں تقریباً 20 فیصد مسلم آبادی بھی شامل ہے۔
یہ ایک ایسی فتح ہے جس سے بی جے پی کے حلقوں میں یوگی کو مودی کا ممکنہ جانشین بنانے پر بحث کو تقویت ملے گی۔
اتر پردیش کے ساتھ دیگر چار ریاستوں میں ہونے والے ان انتخابات کو 2024 میں آئندہ عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کے لیے ایک اہم امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جب مودی اپنی تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑیں گے۔
دوسری جانب ان ریاستوں کے نتائج خاص طور پر بھارت کی ایک زمانے کی سب سے مضبوط نیشنل کانگریس پارٹی کے لیے تباہ کن تھے۔ کانگریس ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت اور بی جے پی کی سب سے بڑی مخالف جماعت ہے۔
برسوں سے بی جے پی کے عروج پر نظر رکھنے والی پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار منیشا پریام کہتی ہیں کہ اتر پردیش جیسی اہم ریاست میں زبردست جیت ’یقینی طور پر یوگی کو بی جے پی کے اندر بہت طاقتور بناتی ہے جن کا جماعت میں کوئی دوسرا مدمقابل نظر نہیں آتا۔‘
منیشا کے مطابق: ’اتر پردیش ایک بہت اہم ریاست ہے اور یہ حجم میں بھی بڑی ہے اس لیے اتر پردیش کی سیاست کا یقیناً دیگر پڑوسی ریاستوں پر اثر پڑتا ہے۔‘
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن نامی تھنک ٹینک کی رکن مایا میرچندانی کہتی ہیں: ’بی جے پی اپنی بھاری اکثریت کھو چکی ہے لیکن یہ اب بھی ایک آسان جیت تھی۔ لہذا اس میں کوئی دوسرا سوال نہیں ہے کہ اسے یوگی آدتیہ ناتھ کی جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘
میرچندانی کہتی ہیں کہ خود مودی نے اتر پردیش کی انتخابی مہم میں توقع سے ’کچھ کم شرکت‘ کی حالانکہ وزیر اعظم عام طور پر پارٹی کے سب سے مقبول اور انتخابات جیتنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’ملک کے باقی حصوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ یہ وزیر اعظم مودی کا پرکشش کردار ہی تھا جب انہوں نے کئی ریاستوں میں وزیر اعلیٰ کے امیدواروں کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یو پی میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ یوگی خود ایک مضبوط رہنما ہیں اور ان کے بہت سے ووٹرز انہیں ایک فطری رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
انتخابات سے پہلے خبررساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں آدتیہ ناتھ نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ کیا انہیں (مودی کے) جانشین کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا: ’میں صرف ایک پجاری ہوں۔ میں ریاست کے لوگوں کی خدمت اس وقت تک کروں گا جب تک پارٹی چاہے گی ورنہ میں اپنے مندر کے ذریعے لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔‘
بی جے پی کے ترجمانوں نے بھی یوگی کے جماعت میں مستقبل کے بارے میں دی انڈپینڈنٹ کے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
جمعرات کو انتخابی نتائج کے اعلان کے فوراً بعد بی جے پی کی رہنما اپرنا یادو نے کہا کہ پارٹی کو اتر پردیش میں تمام مذہبی برادریوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہندو، مسلم، سکھ، مسیحی سب کے سب ہیں بھاجپائی‘ یعنی ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا بی جے پی کے ساتھ ہے۔
یہ اس مذہبی ہم آہنگی کا پیغام ہے جو آدتیہ ناتھ کے تقریباً تین دہائیوں پر محیط سیاسی کیریئر اور ریاست میں ان کے پانچ سالہ حکمرانی کی حقیقت سے متصادم ہے۔
49 سالہ یوگی ہندوتوا کی سیاست کے سب سے سخت گیر برانڈ کے پوسٹر بوائے ہیں جو حالیہ برسوں میں ملک پر غلبہ حاصل کرنے اور مذہب کی بنیاد پر گہری تقسیم کرنے والی شخصیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یوگی مشرقی اتر پردیش کے گورکھ پور قصبے کے ایک اہم ہندو مندر ’گورکھ ناتھ مٹھ‘ کے سربراہ ہیں۔ وہ یہ عہدہ ستمبر 2014 میں اپنے روحانی ’باپ‘ مہنت اویدیا ناتھ کی موت کے بعد سے سنبھالے ہوئے ہیں۔
یوگی نے ہندو یووا واہنی (ہندو یوتھ آرمی) کے نام سے ایک نجی ہندو ملیشیا تنظیم کی بھی قیادت کی جو ’گاؤ ماتا رکھشا‘، ’زبردستی مذہب کی تبدیلی‘ اور ’لو جہاد‘ کو روکنے جیسے مذہبی مقاصد کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ دونوں ہی تنظیمیں مبینہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں۔
ان کے کارکنوں پر معمولی واقعات کو فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل کرنے کا الزام ہے۔
وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے آدتیہ ناتھ نے ملک کی مسلم اقلیت کے خلاف کئی متنازع تقریریں کیں تھیں۔
انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ریاست میں ’مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم محفوظ نہیں ہیں‘ اور وہاں فسادات کے بعد ’مغربی یو پی کو کشمیر (بھارت کا واحد خطہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں) میں تبدیل کرنے سے روکا جائے گا۔‘
کثیر الثقافتی ریاست کا چارج سنبھالنے کے بعد بھی ان کا لہجہ پوری طرح سے نہیں بدلا۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ’80 فیصد لوگ بی جے پی کے ساتھ ہیں اور 20 فیصد ہمیشہ ہماری مخالفت کرتے ہیں۔‘
اس کے باوجود انہوں نے بعد میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبصرہ بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ انٹرویو میں ’مذہب یا ذات کے تناظر میں‘ نہیں تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں آدتیہ ناتھ کے متنازع بیانات نے انہیں نقصان نہیں پہنچایا کیوں کہ وہ ایک گہری فرقہ وارانہ تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو ریاست کے ووٹروں کے درمیان موجود ہے۔
جمعرات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم اتر پردیش میں اکثریتی حکمرانی کا نعرہ ایک زبردست انتخابی فتح کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔
© The Independent