انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل روپوش ہونے پر مجبور؟

ہم گلالئی اسماعیل کے معاملے میں بے حد فکر مند ہیں۔ ان سے آخری بار بات ایک ماہ پہلے ہوئی تھی: بہن صبا۔

گلالئی اسماعیل (اے پی)

پاکستان میں ایک 11 سالہ لڑکی سے زیادتی اور قتل کے واقعے پر کارروائی کا مطالبہ کرنے والی انسانی حقوق کی ایک عالمی شہرت یافتہ کارکن گلالئی اسماعیل کو مبینہ طور پر روپوش ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

گلالئی پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت بغاوت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ انہوں نے گذشتہ ماہ 11 سالہ فرشتہ مہمند کے قتل پر انتظامیہ کے مایوس کن جواب پر احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ فرشتہ کی لاش اس کے اسلام آباد میں واقع گھر کے قریب جنگل سے ملی تھی۔

گلالئی نے اسلام آباد میں ایک تقریر کے دوران پولیس اور سکیورٹی اداروں سے شہریوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے خاص طور پر پشتون برادری کی حفاظت پر زور دیا جس سے خود ان کا اور مقتولہ فرشتہ کا تعلق ہے۔

انہوں نے فرشتہ قتل کیس کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ عسکریت پسندی، مذہبی بنیاد پرستی اور معاشرے میں پھیلی حیوانیت جنگ پر استوار معیشت کا نتیجہ ہے، جس نے معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنگی معیشت نے پاکستانی معاشرے سے انسانیت چھین لی ہے اور بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات میں خوفناک اضافے کی وجہ معاشرے میں پھیلی حیوانیت ہے۔

ٹوئٹر پیغام میں گلالئی نے مزید کہا کہ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ فرشتہ کے خاندان کو مقدمے کے اندراج اور اس کی لاش کے پوسٹ مارٹم میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ مہمند کے علاقے سے بے گھر ہو کر آنے والے لوگ تھے۔ ان کے بےگھر اور غریب ہو نے کی وجہ جنگی معیشت ہے۔

گلالئی کی بہن صبا اسماعیل نے ’Aware Girls‘ کے نام سے غیر سرکاری تنظیم کے قیام میں مدد کی۔ یہ غیر سرکاری تنظیم اس وقت سے امن اور برادری کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے جب دونوں بہنیں خود بھی کمسن تھیں۔

صبا نے اس ہفتے امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کی مدد کے لیے لابنگ کی۔ انہوں نے شورش زدہ علاقے میں جنسی تشدد سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ پرامیلا پیٹن سے بھی بات کی۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ’ہم اپنی بہن گلالئی اسماعیل کے معاملے میں بے حد فکر مند ہیں۔ ان سے آخری بار بات ایک ماہ پہلے ہوئی تھی‘۔

صبا کا دعوی ہے کہ ان کے خاندان کو مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا اور سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر چھاپہ مارا۔ ’میری بہن روپوش ہو چکی ہیں۔‘

گلالئی صوابی کے دور افتادہ علاقے میں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں۔ دو سال پہلے انہوں نے ’ٹی ای ڈی‘ (ٹیکنالوجی، انٹرٹینمنٹ، ڈیزائن) کے نام سے قائم ایک میڈیا تنظیم کی کانفرنس سے زور دار خطاب میں انکشاف کیا تھا کہ کس طرح 16 برس کی عمر تک وہ جہادی بننا چاہتی تھیں۔

گلالئی کا کہنا تھا کہ ان کے پرانے خیالات کے حامل شہر میں پوسٹر لگا کر نوجوان لڑکے، لڑکیوں کو افغانستان یا کشمیر میں ’شہید‘ ہونے کے لیے بھرتی کرنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے لوگوں کو سکھایا گیا تھا کہ شہادت کے بعد کی زندگی زمین پر زندہ رہنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہے۔ جس شخص نے انہیں روکا وہ ان کے والد محمد اسماعیل تھے جنہیں انتہا پسندوں کے جہاد میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور امن پر یقین رکھتے تھے۔ گلالئی نے 16 برس کی عمر میں غیر سرکاری تنظیم ’Aware Girls‘ شروع کی۔

اس غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام تقاریب میں شرکت کرنے والوں میں ملالہ یوسفزئی بھی شامل ہیں۔

گلالئی  کو اپنے کام پر کئی ایوارڈ مل چکے ہیں جن میں ’اینا پولٹکوف سکایا‘ (Anna Politkovskaya) ایوارڈ شامل ہے، جو 2006 میں قتل ہونے والی روسی صحافی کے نام پر ہے۔

سرگرم عمل خواتین کے ایک گروپ نے، جس میں Reach All Women in War کی ماریانا کٹزرکووا، شمالی مشرقی بھارت میں قیام امن کے لیے خواتین کی تنظیم کی بینا لکشمی نپرام اور ’کوٹا الائنس‘ کی جانا رہنسٹورم شامل ہیں، اپنے کھلے خط میں عمران خان کی حکومت پر زور دیا کہ گلالئی کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

یہ کھلا خط اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش کو بھیجا گیا۔کھلے خط میں لکھا گیا کہ گلالئی اپنی برادری میں ایسی بہت سی خواتین، لڑکیوں اور نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہیں جن کی آواز نہیں سنی جا سکی۔ ’گلالئی ایک جرات مند آواز ہے اور ان کے کام پر کسی بھی ملک اور دنیا کو فخر کرنا چاہیے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنوبی ایشیا عمر وڑائچ نے کہا پاکستانی حکام کی جانب سے گلالئی اسماعیل اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے اور ڈرانے کا سلسلہ لازمی طور ختم ہونا چاہیے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ملک میں انسانی حقوق کی خوف ناک صورت حال پر توجہ دینے کے بجائے سکیورٹی ادارے اپنی توانائی اور وسائل انسانی حقوق کے دفاع میں بلند ہونے والی آواز کو خاموش کرانے پر صرف کر رہے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم ’Reach All Women In War‘ کی عہدے دار ماریانا کٹزرکووا کہتی ہیں نیا پاکستان اس وقت بنے گا جب انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی گلالئی اسماعیل جیسی خواتین محفوظ ہوں گی اور ریاست، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار حکام انہیں تکلیف پہنچانے اور جان کی دھمکیاں دینے کے بجائے ان کی مکمل طور پر مدد کریں گے۔

گلالئی اسماعیل کے معاملے میں پاکستانی وزارت خارجہ، وزیر اعظم آفس یا وزارت انسانی حقوق کی جانب سے کوئی فوری جواب نہیں ملا۔

شورش زدہ علاقوں میں جنسی تشدد سے متعلق اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی پرامیلا پیٹن کے دفتر نے ان کی گلالئی اسماعیل کی بہن  صبا سے ملاقات کی تصدیق کی ہے لیکن کہا کہ ملاقات میں ہونے والی گفتگو عام نہیں کی جا سکتی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان