صباء اسماعیل اپنے بروکلین گھر میں اپنی بہن گلالئی کے وائس میل سے جاگ جاتی ہیں۔ وہ کال کر رہی تھیں یہ بتانے کے لیے کہ انہیں پاکستانی حکام نے لندن سے واپسی پر اسلام آباد میں حراست میں لے لیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے یا ایف آئی اے نے گلالئی کو بتایا کہ ان کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جا رہا ہے اور انہیں فوری طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے۔
گرفتاری کے دوران ریکارڈ کیے گئے ایک پیغام میں گلالئی نے کہا کہ ’شہری آوازوں کے لیے فضاء سکڑ رہی ہے۔ وہ صدائیں جو امن کی بات کرتی ہیں۔‘ بعد میں دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو میں گلالئی نے کہا: ’میں جانی پہچانی حقوق انسانی کی کارکن ہوں اور میں نے ہمیشہ انتہا پسندی کے خلاف، نوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں سے بچانے، قیام امن اور اس قیام امن میں عورتوں کی شمولیت کے لیے کام کیا ہے اور میں نے ہمیشہ عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔
’میرا نام ای سی ایل میں شامل کرنا تاکہ میں پاکستان چھوڑ نہ سکوں...میرے اظہار رائے کی آزادی، سوچ کی آزادی کے آئینی حقوق پر حملہ ہے۔ ای سی ایل میں ایک معروف حقوق انسانی کے کارکن کے نام کو شامل کرنا پاکستان کے کردار پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔‘
اب ایک مرتبہ پھر انہیں قانونی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہے ہے۔ سماجی رضاکار گلا لئی اسماعیل کے خلاف گذشتہ روز دو نئے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ان پر تازہ الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان مخالف تقاریر کیں اور پختونوں کے دلوں میں ملک مخالف جذبات اور نفرت پھیلائی۔
پہلا مقدمہ تھانہ شہزاد ٹاؤن میں گلا لئی اسماعیل کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک مقامی شہری کی درخواست پر درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق گلالئی اسماعیل نے فرشتہ کے ریپ اور قتل کو بنیاد بنا کر حکومتِ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تھی۔ گلالئی اس الزام سے انکار کرتی ہیں۔
ان کی گذشتہ سال اکتوبر میں مختصر حراست کے چند گھنٹوں کے اندر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے
#ReleaseGulalaiIsmail
ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئےان کی رہائی کے لیے دنیا بھر میں ایک مہم شروع کر دی تھی۔
انٹرنیشنل ہومنسٹ اینڈ ایتھکل یونین (آئی ایچ ای یو) کے صدر اینڈریو کوپسن جس کی گلالئی بورڈ کی رکن ہیں نے کہا: ’ہم اپنی پیاری دوست اور ساتھی کے لیے تشویش میں مبتلا ہیں۔ گلالئی ایک بہادر انسان پرست اور حقوس انسانی کی علمبردار ہیں، جن کی امن اور حقوق انسانی کے لیے انتھک کوشیشوں نے انہیں دنیا بھر میں عزت دلوائی ہے۔‘
آٹھ گھنٹوں تک حراست میں رکھنے کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ لیکن ان کی بہن کا بعد میں دعوی تھا کہ گلالئی کو ان کا پاسپورٹ نہیں لوٹایا گیا ہے اور وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتی ہیں۔ حکومت پاکستان اور ایف آئی اے نے ردعمل کے لیے رابطوں پر کوئی جواب نہیں دیا۔
ایسے ماحول میں جہاں حکومت پر آزادانہ تقاریر کو روکنے کے الزام ہے، پاکستان کو گلالئی کی گرفتاری کے بارے میں جواب دینے ہوں گے، اور کیوں اس کے ساتھ نو دیگر افراد پر مقدمات بنائے گئے۔
شمال مغربی پاکستان میں پروان چڑھنے والی، صبا اور گلالئی کا تعلق ایک ترقی پسند خاندان سے ہے جہاں انہیں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے ہمراہ ان کے والد محمد اسماعیل نے جوکہ خود ایک استاد اور اور کارکن ہیں حقوق انسانی اور صنفی مساوات کے بارے میں سکھایا گیا ہے۔
گھر سے باہر ایک مختلف دنیا
تیس سالہ صباء نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’جب میں پیدا ہوئی تو میں نے تضادات کو قریب سے دیکھا۔ لوگ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اپنے بیٹوں سے مختلف سلوک کرتے ہیں۔ سکول کے اندر، باہر، میں اس فرق کو بہت کم عمر سے دیکھا۔’
اگرچہ وہ روزانہ کی بنیاد پر صنفی عدم مساوات کو دیکھتی تھیں، نوجوان سالوں یعنی ’ٹین ایج’ میں ایک خاص لمحہ تھا جو اب بھی صباء کے لیے اہم رہا ہے۔
’میری ایک کزن جب 12 سال کی تھی تو وہ واقعی پائلٹ بننا چاہتی تھی۔ لیکن اسے ایک دن بتایا گیا کہ وہ اب سکول نہیں جاسکتی کیونکہ اس کی اس سے 15 سال بڑی عمر کے ایک شخص سے شادی ہونے والی ہے۔ اسے اپنی تعلیم اگلے روز ہی روکنا پڑا۔
’میں نے دیکھا کہ میرے مرد کزن سکول جا رہے ہیں، ان کی تعلیم کو جاری رکھا گیا ہے، اور میں نے سوچا کہ وہ تو ایک پائلٹ بننا چاہتی ہے، اور سکول چاہتے ہوئے بھی نہیں جا رہی ہے۔ اسے اس کی بجائے شادی کرنا ہے۔ اس نے میرے اور میری بہن کے ذہنوں میں سوالات کو جنم دیا۔‘
اس ایک لمحے نے اس وقت پندرہ سالہ صباء اور سترہ سالہ گلالئی کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان میں لڑکیوں کے لیے جنسی مساوات حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ ایک تنظیم شروع کی جائے۔
ایویر گرلز کا سال دو ہزار دو میں آغاز ہوا اور آج تک متحرک ہے۔ یہ خواتین کو تعلیم کے حصول میں مدد دینے انہیں سیاسی دھارے اور قیام امن کے عمل میں شامل کرنے اور صنفی تشدد کے خاتمے کے کوششیں کر رہی ہے۔
اس طرح کم عمری میں ناانصافی کے خلاف لگائے گئے پودے کی ان دو خواتین نے پرورش جاری رکھی ہوئی ہے۔ صباء نے 2017 میں وائٹ ہاؤس میں قیام امن کے موضوع پر بات کی۔ وہ میلنڈا گیٹس کے ساتھ ایک پینل میں شریک تھیں اور اقوام متحدہ کے لیے باقاعدہ مشاورت کرتی ہیں۔ گلالی نے بھی بہت سے تنظیموں کے ساتھ کام کیا ہے۔ انہوں نے انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد پر انٹرنشنل ہومنسٹ کا سالانہ ایوراڈ اور انا پولٹسکایا ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انہیں فارن پالیسی میگزین نے 100 کلیدی عالمی مدبروں کی فہرست میں نامزد کیا تھا۔ انہوں نے ٹیڈ ایکس میں مذہبی انتہا پسندی اور اسے عدم پرتشدد طریقوں سے روکنے پر پرجوش باتیں کی ہیں۔ گلالئی نے پاکستان فوج کی قبائلی علاقوں میں کارروائیوں کی شدید مخالفت کی جس میں ہزاروں عام شہری لقمہ اجل بنے۔ لیکن اس طرح کی تنقید کم ہی جواب کے بغیر رہتی ہے۔
گذشتہ سال اگست میں انہوں نے خیبر پختونخوا صوبے کے صوابی ضلع میں ایک تقریب میں بات کی۔ اس اجتماع کو پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) نے منعقد کیا تھا۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم نے ملک کے شمال مغربی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور ان کے آپریشنوں کی مذمت کی ہے اور اس سے قبل دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر فوج کی طرف سے ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
’مجھے حراست میں بتایا گیا تھا کہ میرے خلاف ایک پولیس کیس ہے ایک ایف آئی آر کیونکہ 12 اگست کو میں نے امن کے لیے احتجاجی ریلی میں حصہ لیا تھا... یہ ایک بڑا احتجاج تھا لیکن ایف آئی آر 19 افراد کے خلاف درج کی گئی تھی۔ میرا نام ان میں شامل تھا۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ان کے خلاف الزامات میں ’غیر قانونی اجتماع، دنگا فساد اور بدزبانی شامل ہیں۔‘ حکومت پاکستان نے ابھی تک ان گرفتاریوں پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔گلالئی کا کہنا تھا کہ ’یہ گلالئی اسماعیل، یا پی ٹی ایم پر حملہ نہیں ہے۔ یہ شہری آزادیوں پر حملہ ہے۔‘
صبا کا دعوی ہے کہ وہ اور ان کی بہن دونوں کو ’لاپتہ افراد‘ میں شامل کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ نیو یارک میں رہنا کے باوجود، صبا کا کہنا ہے کہ دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے اور ان کی مہم کی وجہ سے آن لائن جارحانہ پیغامات بھی ملتے رہے ہیں۔
گذشتہ 20 سالوں کے دوران پاکستان میں لوگوں کا جبری لاپتہ ہونے کا سلسلہ عام ہے۔ حقوق انسانی کے کارکنوں اور بلاگرز کی گمشدگیاں خطرناک شرح سے جاری ہیں۔
’کئی لوگ ہیں جو غائب ہیں۔ کوئی بھی ان کے بارے میں نہیں جانتا وہ کہاں ہیں، وہ چلے گئے ہیں۔‘ صباء کا کہنا ہے کہ ’اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کسی کو کئی سال بعد کسی قبر سے واپس لایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو تشدد کرکے مارا جاتا ہے۔‘
صبا قتل کیے جانے والے سیاست دان سلمان تاثیر کی مثال بیان کرتی ہیں۔ 2011 میں سلمان تاثیر نے توہین مدۃب کے قانون کے تحت آسیا بی بی نامی ایک عیسائی عورت کو دی گئی سزائے موت کے بارے میں بات کی تھی۔ تاثیر کے محافظ ممتاز قادری نے انہیں 27 گولی مار دیں۔ قادری کو اس قتل کے نتیجے میں 2016 ء میں پھانسی دے دی گئی۔
صبا کا کہنا ہے کہ ’وہاں 500 سے زائد وکلاء تھے جنہوں نے کہا کہ وہ اس محافظ کا مفت دفاع کریں گے، اور اس نے جو کیا مذہب کے نام میں کیا۔ وہاں لوگوں نے جشن میں گلاب کی پنکھڑیاں پھینکیں۔ اس موت کی سزا کے خلاف سڑکوں پر ہزاروں افراد احتجاج کرتے تھے۔ اس شخص نے کسی کو قتل کیا ہے، وہ کھلے طور پر کہتے ہیں اس نے ایسا مذہب کے نام پر کیا ہے۔ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ مذہبی عالم شخص تھا۔‘
صبا مذہبی انتہاپسندی کو اس غیریقینی صورتحال خصوصا مذہبی دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ یہ انتہائی گہرا نظریہ ہے جو اسماعیل بہنوں کی سرگرمیوں میں بار بار رکاوٹ بنتا ہے۔ اگرچہ حملوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، صبا کا دعوی ہے کہ یہ خطرناک نظریات ہمیشہ سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔
’اویر گرلز‘ کے ساتھ کام میں، صباء پاکستان کے شمال میں عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے بھرتی کی جانے والی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں سے ملتی رہتی ہیں۔
’صوابی کے علاقے میں ایک مدرسے میں شاید 16 یا 17 سال کی لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا: 'آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے فارغ وقت میں کیا کرتی ہوں؟ میں غلیل کی پریکٹس کرتی ہوں۔ 'ہم نے اس سے پوچھا کیوں تو اس نے کہا:' کیونکہ مجھے پاکستان کی حفاظت کرنا ہے۔ ملک میں ایسا وقت نہیں ہونا چاہیے جب مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہ ہو۔ آپ کو کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہونا ہوگا۔‘
’انتہاپسند گروپ نوجوان لڑکیوں کی بہت کم عمری سے سوچ تبدیل کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں نہ صرف نوجوان مرد بلکہ خودکش حملہ آوروں کے طور پر لڑکیاں بھی چاہیے۔ انہیں ہر وقت تیار ہونا ہوگا۔‘
جدید معاشرے میں سوشل میڈیا انتہا پسندانہ نظریات کو دور تک پہنچانے کی صلاحیت فراہم کر رہا ہے۔ نوجوانوں کی انتہا پسندی کی جانب مائل ہونا ایک حقیقی تشویش ہے۔ لیکن اسماعیل بہنوں جیسے لوگ تعلیم اوف آگہی کا سفر ختم نہیں کریں گے۔.
صباء کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان نظریات سے لڑنے کے لیے جوابی نظریات کی ضرورت ہے۔ لہذا ہم نوجوانوں، مردوں اور عورتوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، نہ صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں، تاکہ وہ برادری میں امن ساز بن سکیں۔‘
گلالئی اب قید نہیں ہیں۔ دوبارہ گرفتاری کے خوف کے باوجود، صبا کا کہنا ہے کہ اس کی بہن کی گرفتاری ان کا اختتام نہیں ہے۔
’اگرچہ وہ ضمانت پر ہے تو پھر بھی خطرہ ہے کہ اسے دوبارہ گرفتار کر لیا جائے۔ لیکن وہ ابھی تک پرعظم اور پرسکون ہیں۔ یہ واقعہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والوں جیسے کہ ایویر گرلز کو نہیں روک سکتا ہے۔ ہم اس سے روکیں گے نہیں۔‘