امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید نئی ’بڑی پابندیاں‘ عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری جانب تہران نے خبردار کیا ہے کہ اگر واشنگٹن نے کسی بھی نوعیت کا حملہ کیا تو مشرق وسطیٰ میں اس کے مفادات خاک ہوجائیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کیمپ ڈیوڈ میں صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر نے کہا کہ وہ ایران کے بہترین دوست بننے کے خواہش مند ہیں، اگر وہ اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی پر راضی ہوجائے۔
ٹرمپ نے کہا: ’اگر ایران اس پر متفق ہوجائے تو وہ ایک امیر ملک بن جائے گا۔ وہ بہت خوش رہیں گے اور میں ان کا بہترین دوست بن جاؤں گا۔‘
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2015 میں ایران نے امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں (جن میں روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں) کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ کیا تھا، تاہم امریکہ گذشتہ برس اس معاہدے سے دستبردار ہوگیا، جس کے بعد سے دونوں ملکوں میں سرد جنگ جاری ہے۔
امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدہ منسوخ کیے جانے کے بعد ایران پر متعدد اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں، تاہم معاہدے کے دو نکات پر اسے تجارتی استثنیٰ حاصل تھا اور اب ٹرمپ ان پابندیوں میں مزید توسیع کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے ٹوئٹر پر لکھا: ’پیر کو ہم ایران پر مزید پابندیاں لگانے جارہے ہیں، مجھے اس دن کا انتظار ہے جب ایران دوبارہ سے ایک بہتر اور خوشحال ملک بن جائے گا۔ یہ جتنا جلد ہو، اتنا اچھا ہے۔‘
Iran cannot have Nuclear Weapons! Under the terrible Obama plan, they would have been on their way to Nuclear in a short number of years, and existing verification is not acceptable. We are putting major additional Sanctions on Iran on Monday. I look forward to the day that.....
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 22, 2019
....Sanctions come off Iran, and they become a productive and prosperous nation again - The sooner the better!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 22, 2019
دوسری جانب ایران کے بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل شکارچی نے امریکہ کو کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے خبردار کیا ہے۔
ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ’اگر امریکہ نے ایک گولی بھی چلائی تو ایران اس خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو جلا کر خاکستر کردے گا۔‘
بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل کے اس بیان کے بعد ایران کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اور بیان میں بتایا گیا کہ جلال حاجی نامی ایک ’امریکی جاسوس‘ کو پھانسی دے دی گئی ہے۔
جلال حاجی کے بارے میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ وہ وزارت دفاع کی ایئراسپیس آرگنائزیشن میں ٹھیکیدار تھا اور امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے جاسوسی کیا کرتا تھا۔
امریکہ ایران تنازع
ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی اُس وقت شروع ہوئی جب گذشتہ ماہ آبنائے ہرمز میں الفجیرہ کی بندرگاہ کے قریب تیل کے ٹینکروں پر حملہ ہوا۔ امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا گیا، تاہم تہران نے اس سے انکار کردیا تھا۔
اس واقعے کے بعد امریکہ نے ایران کی سرحد سے قریب سمندر میں اپنا طیارہ بردار بحری جہاز لا کر کھڑا کر دیا جبکہ خطے میں موجود اپنے فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا۔
پیر (17 جون) کو کشیدگی اُس وقت مزید بڑھ گئی جب ایران نے ایک امریکی فوجی ڈرون طیارہ مار گرایا۔
ایران اور امریکی فوجی حکام نے تہران کی جانب سے امریکی فوجی ڈرون مار گرائے جانے کی تصدیق کی تھی، تاہم دونوں کی جانب سے ڈرون کے ماڈل اور اس کے مقام کے بارے میں بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ امریکی فوج کا کہنا تھا کہ ان کا ڈرون بین الاقوامی فضائی حدود میں تھا جبکہ ایرانی پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ ڈرون کوہ مبارک کے مقام پر ان کی فضائی حدود میں داخل ہوا۔
اس واقعے کو امریکی صدر نے ایران کی جانب سے ’ایک بڑی غلطی‘ قرار دیا تھا۔
بعدازاں ہفتے کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے بتایا کہ انہوں نے ایران پر حملے کا حکم دیا، لیکن ممکنہ ہلاکتوں کے پیش نظر دس منٹ بعد ہی یہ اقدام روک دیا گیا۔
ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں اسے ٹرمپ کی جانب سے ایران پر حملے کا فیصلہ واپس لیے جانے سے رپورٹ کیا گیا، جس پر امریکی صدر نے واضح کیا کہ کچھ لوگ غلط رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ ’واپس‘ نہیں لیا، بلکہ فی الوقت اسے آگے بڑھنے سے روکا تھا۔
I never called the strike against Iran “BACK,” as people are incorrectly reporting, I just stopped it from going forward at this time!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 22, 2019