ایک بار پھر ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے اور کسی بھی فریق کی معمولی غلطی کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ غلطی نہ صرف دونوں فریقوں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔
قومی سلامتی کے امریکی مشیر جان بولٹن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ایران کی جانب سے ’پریشان کن اشارے‘ ملنے کے بعد بحری بیڑہ ’ابراہام لنکن‘ اور بمبار طیارے مشرق وسطیٰ بھیج رہا ہے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ جان بولٹن ایرانی حکومت تبدیل کرنے کے لیے جنگ چاہتے ہیں۔ مارچ، 2015 میں جب ایران اور اوبامہ انتظامیہ کے درمیان ایٹمی معاملے پر مذاکرات عروج پر تھے تو بولٹن نے اخبار نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’ایرانی بموں کو روکنے کے لیے اس پر بمباری کی جائے‘۔
بولٹن نے اپنے مضمون میں تجویز دی تھی کہ امریکہ یا اسرائیل کو ایرانی ایٹمی ڈھانچے پر حملہ کر دینا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ ایرانی حزب اختلاف کی بھی کھل کر حمایت کرے تاکہ حکومت تبدیل کی جا سکے۔
اسی طرح 2017 میں ایرانی اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق کے اجتماع کے موقعے پر بولٹن نے کہا تھا کہ امریکہ کی پالیسی ملاؤں کی حکومت کا خاتمہ ہونی چاہیے۔
2003 میں عراق پر امریکی حملے میں بولٹن کا کردار نمایاں تھا اور آج ایسا لگتا ہے کہ وہ ایران کے حوالے سے وہی باتیں کر رہے ہیں لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ نہیں چاہتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایران حکومت تبدیل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے، بس وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ اوبامہ دور میں ہونے والا ایٹمی معاہدہ منسوخ کر کے ایک نئے اوربہتر معاہدے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
ناقدین کی رائے میں ٹرمپ ایران کے ساتھ ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس پر ان کا نام لکھا ہو۔ دوسری جانب، قومی سلامتی کی جو ٹیم اس وقت ٹرمپ کے اردگرد موجود ہے وہ انھیں جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکہ میں آج کا سیاسی ماحول عراق کے خلاف جنگ سے پہلے کے ماحول سے مختلف ہے۔
عراق پر حملہ نائن الیون واقعے کے بعد کیا گیا جب امریکی عوام غصے میں تمام ’دشمنوں‘ سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔ اُس وقت جنگ مشکل نہیں تھی چاہے وہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جزوی اطلاعات کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔
گذشتہ دس برس میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آج امریکی عوام مشرق وسطیٰ میں طویل جنگوں سے اکتا چکے ہیں کیونکہ ان میں ہزاروں افراد کو زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں جبکہ عوام کے ٹیکس کے اربوں ڈالرز جنگوں پر صرف ہوئے۔
امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں جنگ کے حامی تو موجود ہیں لیکن ان کے ایجنڈے کو عوامی حمایت حاصل نہیں۔
ایک فرق اور بھی ہے، وہ یہ کہ یورپ ایران کے ساتھ امریکہ کی جنگ نہیں چاہتا جس کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے کی موجودگی ہے۔
بولٹن جانتے ہیں کہ امریکی عوام کو ایران کے ساتھ ایک بھرپور جنگ پر تیار کرنا ممکن نہیں لیکن اس کے ساتھ یہ واضح ہے کہ کسی ’حادثے‘ کی صورت میں قومی سلامتی کے امریکی مشیر ایران کے خلاف جنگ میں دیر نہیں لگائیں گے اور یہ جنگ عراق کی جنگ کے مقابلے میں زیادہ بری ہوگی جس کے امریکی اور ایرانی عوام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔