لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی: عالمی بینک نے افغان منصوبے روک دیے

بینک نے کہا کہ اس کے نتیجے میں چاروں منصوبے اے آر ٹی ایف کے عطیہ دہندگان کو منظوری کے لیے صرف اس وقت پیش کیے جائیں گے’جب عالمی بینک اور بین الاقوامی شراکت داروں کو صورتحال کا بہتر ادراک اور اعتماد ہو کہ منصوبوں کے اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔‘

افغان خواتین اور لڑکیاں 26 مارچ 2022 کو کابل میں وزارت تعلیم کے سامنے ایک احتجاج میں حصہ لے رہی ہیں، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ لڑکیوں کے لیے ہائی سکول دوبارہ کھولے جائیں (تصویر: اے ایف پی)  

عالمی بینک نے افغانستان  کے سرکاری ہائی سکولوں میں لڑکیوں کی واپسی پر پابندی کے فیصلے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے 60 کڑوڑ ڈالر مالیت کے چار منصوبے روک دیے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ (اے آر ایف) کے تحت ان منصوبوں کو اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے زراعت، تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبوں کی مالی معاونت کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔

طالبان کی جانب سے ہائی سکول میں لڑکیوں پر پابندی کے متعلق عالمی بینک نے اپنے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: ’بینک کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ اے آر ٹی ایف کی مالی معاونت سے چلنے والی تمام سرگرمیاں جاری رہیں تاکہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں تک سروسز پہنچانے اور ان تک رسائی میں مدد مل سکے۔‘

بینک نے کہا کہ اس کے نتیجے میں چاروں منصوبے اے آر ٹی ایف کے عطیہ دہندگان کو منظوری کے لیے صرف اس وقت پیش کیے جائیں گے’جب عالمی بینک اور بین الاقوامی شراکت داروں کو صورتحال کا بہتر ادراک اور اعتماد ہو کہ منصوبوں کے اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔‘

 فوری طور پر یہ واضح نہیں تھا کہ ایسا کب ہوسکتا ہے۔

لڑکیوں کو سیکنڈری سکول سے باہر رکھنے کے فیصلے بنا پر امریکی حکام نے گزشتہ ہفتے دوحہ میں طالبان کے ساتھ طے شدہ ملاقاتیں منسوخ کر دی تھیں

عالمی بینک کے ایگزیکٹو بورڈ نے یکم مارچ کو اے آر ٹی ایف فنڈ سے ایک ارب ڈالر سے زائد رقم استعمال کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی تھی تاکہ فوری طور پر ضروری تعلیم، زراعت، صحت اور فیملی پروگرامز کی مالی معاونت کی جا سکے۔ یہ رقم اقوام متحدہ کے اداروں اور امدادی گروپوں کے ذریعے تقسیم کی جائے گی ناکہ ان طالبان رہنماؤں کے جن پر امریکی پابندیاں ہیں۔

اے آر ٹی ایف کو اگست میں اس وقت منجمد کر دیا گیا تھا جب طالبان نے اقتدار سنبھالا۔

غیر ملکی حکومتوں نے مالی امداد بھی بند کر دی ہے جس سے 70 فیصد سرکاری اخراجات چل رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک کا معاشی بحران مزید بڑھ گیا ہے۔

جب عالمی بینک نے اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعہ چلائے جانے والے نئے منصوبوں کے لیے اے آر ٹی ایف فنڈز فراہم کرنے پر اتفاق کیا تو اس وقت شرط عائد کی تھی کہ:’اس بات پر خاص توجہ دی جائے گی کہ لڑکیاں اور خواتین شرکت کریں گی اور اس امداد سے مستفید ہوں گی۔‘

طالبان کے آنے سے گذشتہ دو دہائیوں میں خواتین کے حقوق سے متعلق پیشرفت کو دھچکا لگا ہے۔ جن میں انہیں کام کرنے سے روکنا اور قریبی مرد رشتےداروں کے بغیر سفر کی پابندی بھی شامل ہے۔

 زیادہ تر لڑکیوں کو ساتویں جماعت سے آگے سکول جانے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

لیکن طالبان رہنماؤں نے کہا تھا کہ اس ماہ کے آخر میں تمام لڑکیوں کو دوبارہ کلاس رومز میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا