’کشمیر چھوڑیں، پاکستان سنبھالیں‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور بھارتی وزیراعظم کو مسائل حل کرنے پر اپنا پہلا بیان دیا تو یقین مانیے کشمیریوں کا ردعمل پہلی بار ماضی سے انتہائی متضاد تھا۔

شہباز شریف نے پیر 11 اپریل کو بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 


پاکستان میں آٹھ مارچ کو شروع ہونے والے سیاسی ڈرامے کے ڈراپ سین کے بعد جب نئے وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور بھارتی وزیراعظم کو مسائل حل کرنے پر اپنا پہلا بیان دیا تو یقین مانیے کشمیریوں کا ردعمل پہلی بار ماضی سے انتہائی متضاد تھا۔

شاید یہ چند جملے اس ردعمل کا نچوڑ پیش کرسکتے ہیں۔

’ خدارا، اب تو ترس کھاکر ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں۔‘

’اپنے ملک کو سنبھال نہیں پا رہے ہو، دوسروں کے مسائل کو سلجھانے لگے ہو۔‘

’70 برسوں سے سیاسی ڈرامے رچا کر اپنی قوم کو ہزیمت کا نشانہ بنا رہے ہو، نکلے ہو کشمیر بچانے۔‘

’کشمیر کو ایک تجرباتی لبارٹری بنا رکھا ہے اور بیان بازیوں سے ہمارا دل بہلاتے رہے ہو۔‘

پھر جب بھارتی قیادت نے اپنی لمبی خاموشی توڑ کر اپنے ہم منصب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی تو اس سے بیشتر لوگوں کا خون کھول اٹھا جس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔

بلکہ میں نے جب عوام کی اس ہیجانی کیفیت کے بارے میں کشمیر میں ایک روزنامے کے ایڈیٹر سے بات کی تو انہوں نے بڑی ہمت کرتے بتایا: ’وزراعظم نریندر مودی عمران خان کے کٹر مخالف ہیں۔ ان کے جانے کی خوشی امریکہ کو اتنی نہیں جتنی بھارت کو ہے۔‘

’مودی نے جو پالیسی جموں و کشمیر پر مسلط کی ہے وہ اس غیر ملکی مداخلت سے کیا کم ہے جس کا ذکر عمران خان کرتے رہیں ہیں۔ جو کچھ ہماری وادی میں ہو رہا ہے اس کا تعلق اگر مغربی ملکوں کی مداخلت سے نہیں مگر ان کی حمایت سے ضرور ہو رہا ہے، کشمیری، دوستی کے اس نئے اظہار اور فوجی سربراہ کے حالیہ بیان کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہے ہیں جس کا سکرپٹ مغربی ملکوں میں لکھا گیا ہے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر پر اتنا ہی کہا جتنا ان کو کہنے کی اجازت ملی ہے کیونکہ کشمیر پالیسی کے جملہ حقوق صرف ایک ادارے کے پاس محفوظ ہیں۔

پاکستان کی منتخب حکومتوں نے کشمیر پالیسی کو محض رسمی بیانات تک ہی محدود رکھا۔ اگر اختیار ہوتا تو نواز شریف نے جب اپنی حکومت کے دوران ہندوستان کے ساتھ تعلقات استوار کرکے کشمیر کو سلجھانے کی کوشش کی تھی تو انہیں وزارت سے ہٹا کر پہلے جیل، پھر اغیار میں نہ بھیجا گیا ہوتا۔

جب نواز شریف نے دوسری بار نریندر مودی کو گھر پر بریانی کھلانے کا تجربہ کیا تو اس کی سزا آج تک اغیار میں بھگت رہے ہوتے۔

سنا ہے کہ وہ واپس وطن کا رخ کرنے والے ہیں اور ان کے مزید کشمیر بیانات سننے کو ملیں گے تاکہ اس میراتھن میں سبقت حاصل کرسکیں جو عمران خان نے کشمیر کو لے کر شروع کیا تھا اور اب عوامی تحریک میں مزید کرنے والے ہیں۔

پاکستان کی ہر بڑی چھوٹی پارٹی صرف اس وقت کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتیں ہیں جب کشمیر میں ہلاکت کا کوئی بڑا واقعہ ہو اور انہیں ’شہید‘ کا درجہ دے کر کشمیریوں پر احسان کرتی ہیں۔

ان کے لیے کشمیر محض ایک جذبات بھڑکانے والا نعرہ رہ گیا ہے جس کی روح 70 برسوں میں جانے انجانے میں ہر ایک پارٹی کی جانب سے پامال کر دی گئی ہیں۔

کشمیر پر جب بھی کوئی بات ہوگی یا سودا بازی ہو گی یا پس پردہ مسئلے کا حل ہو گا، وہ شاید پاکستان کی کسی بھی منتخب حکومت سے امید رکھنا ایک بھرم ہے بلکہ اس کی پالیسی یا اس میں کوئی پیش رفت ایک ہی ادارے کے حق اختیار میں ہیں جس کی مثالیں جنرل ایوب کے تاشقند معاہدے، جنرل ضیا کی کرکٹ ڈپلومیسی اور جنرل مشرف کے آگرہ اجلاس میں ملتی ہیں۔

بھلے ہی یہ تینوں تجربے بھی ناکام رہے ہیں۔

ظاہر ہے ہندوستان کے سیاست دانوں کے لیے بھی کشمیر تنازعہ آکسیجن کی مانند رہا ہے جو انتخابات میں امیدوار کے لیے وینٹریلیٹر کا کام کرتا ہے۔ جیسا کہ کشمیر میں پلوامہ حملے نے اس پارٹی کی جیت یقینی بنادی تھی جس کے بارے میں رائے عامہ کے تجزیوں نے ہارنے کا سگنل بجا دیا تھا۔

البتہ پاکستان کے مقابلے میں ایک نمایاں فرق ہے کہ ہندوستان کی سول یا فوجی انتظامیہ میں کشمیر پالیسی پر نہ کوئی تضاد رہا ہے اور نہ کوئی اختلاف رائے۔ ہر ہندوستانی الحاق کے دستاویز کو مستحکم کرتا رہا ہے۔

کانگریس سرکار نے 1987 میں راجیو فاروق اکارڈ کے بعد جب کشمیری نوجوانوں کو ذدوکوب کرکے جیلوں میں بھر دیا تھا تو سوچا تھا کہ کشمیری انتشار کو پابند سلاسل کرکے اسے انتخابی محور بنانے کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی ہے۔

چند برسوں بعد ہی جب مسلح تحریک شروع ہوئی تو حالات واپس زیرو پوائنٹ پر پہنچ گئے تھے۔

ساتھ ہی ہندوستان کے سیاسی افق پر بھارتیہ جنتا پارٹی ظاہر ہوچکی تھی جو پہلے دن سے اپنی مخصوص کشمیر پالیسی پر گامزن رہی۔

اس کی تصدیق پانچ اگست 2019 کو ہوئی جب پارٹی منشور کے مطابق آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دلی کے جنوب ایشیائی امور کے استاد راجیو بھٹاچاریہ کہتے ہیں کہ ’کانگریس کی پالیسیوں نے اندرونی طور پر کشمیر کو تباہ کرنے میں کئی سال لگا دیے، بی جے پی نے سب کچھ ایک جھٹکے میں کر دیا۔ کانگریس ہندو ووٹ بچانے کے لیے اس حد تک گرگئی کہ اس نے کشمیر کے ممتاز رہنما افضل گورو کو پھانسی پر لٹکایا جس کے بدلے میں قومی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنا مقصود تھا مگر کانگریس کی یہ چال بھی الٹی پڑ گئی۔‘

کرکٹر عمران خان کے لاکھوں مداح کشمیر میں پہلے ہی موجود تھے لیکن جب پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے فوراً بعد عمران خان نے خود کو کشمیر کا سفیر مقرر کیا اور عالمی ایوانوں میں اس مسئلے پر کھل کر بات کرنا شروع کر دیا تو بیشتر لوگوں کی امید دوبارہ بندھ گئی۔

یہ سوچ عوام میں گہری ہوگئی کہ مسئلے کو بندوق کے بجائے سفارت کاری سے اٹھایا جائے تو شاید اپنے بیانیے کے لیے عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکتا ہے جو بقول ایک بھارتی صحافی ’بھارتی حکام کے لیے باعث پریشانی رہا۔ بھارت کا مقصد کشمیر مسئلے کو محض اسلامی دہشت گردی قرار دلوانا ہے اور روز روز کی دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کی خبروں سے دنیا پر واضح کروانا ہے کہ خطے میں سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ دہشت گردی کی جنگ ہے اس طرح کے واقعات سے بھارت اپنے موقف کو مظبوط کرتا ہے۔‘

کشمیریوں نے اکثر اس کیفیت کو بیان کیا کہ عمران خان نے ابتدا میں جو ولولہ انگیزی دکھائی تھی وہ فوراً مانند کیوں پڑگئی۔ اب اس کا جواب تو نہیں مل سکتا کہ کیا ان کے ولولے پر بھی اس طرح سے رعب جمایا گیا جس طرح دس اپریل کی رات کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹی وی سکرینز پر قیدی وین کو بار بار دکھانے کی کوشش کی جارہی تھی۔

پھر جن کے پاس کشمیر کے من جملہ حقوق محفوظ ہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق جوش و جذبے کا مظاہرہ کرسکتے ہیں یا نظریے ضروریات کے مطابق ’ماضی کو دفن کرنا ہوگا‘ جیسے کلمات سے نواز سکتے ہیں۔

لہذا شہباز شریف ہوں یا عمران خان، زرداری ہوں یا عارف علوی، درجن بھر مولوی ہوں یا سرحد پار بھارت کی حکمران یا اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں، کشمیر جہاں ان سب کے لیے سیاست کا مہرہ بن گیا ہے وہیں یہ بعض مقدس اداروں کے لیے پرچم میں لپٹی جاگیر ہے جس پر دونوں ملکوں کی عدالتیں آئین کی بالا دستی یا نظریے ضروریات پر بحث کرنے کے لیے راتوں کو کیا، دن میں بھی کبھی کھولی نہیں جا سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ