وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت اور ان کی وزارت خارجہ کی نئی ٹیم کے لیے افغانستان میں طالبان کے اسلامی امارت کی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ایک بہت بڑا چیلنج رہے گا۔
نئی وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر تجربہ کار تو ہیں لیکن ان کے لیے طالبان حکومت سے تعلقات میں بہتری لانا بالکل بھی آسان نہیں ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو پاکستان کی وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالتے ہیں یا حنا ربانی کھر ہی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں گی۔
ویسے تو نئی حکومت بننے کے بعد بھی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیل کا امکان نہیں لیکن طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات پر معمول پر لانا پاکستان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت سابق وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسیوں کو برقرار رکھتے ہیں یا کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔ عام طور پر افغان پالیسی پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہی رہتا ہے اور سیاسی قیادت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ شہباز شریف اور ان کی ٹیم خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلیاں لاتی ہیں۔
پاکستان میں نئی حکومت ایسے وقت میں بنی ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر ہونے حالیہ تشدد کے واقعات نے کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ اپریل 14 کو سرحد پار سے ایک حملے میں سات پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت سے متعلق فوج کے شعبہ اطلاعات عامہ کے بیان کے ایک دن بعد طالبان حکومت نے کابل میں پاکستان سفیر منصور خان کو طلب کرکے کنڑ اور خوست صوبوں میں پاکستانی طیاروں کی مبینہ بمباری پر احتجاج کیا۔
افغان حکام کے مطابق ان حملوں میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بےگھر ہونے افراد کے ایک کیمپ کو نشانہ بنایا گیا اورخواتین اور بچوں سمیت 40 تک ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا۔
ٹی وی چینلوں کے مطابق سکیورٹی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں ٹی ٹی پی کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے، تاہم سرکاری طور پر پاکستان نے حملوں کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے حالیہ ایک بیان میں سرحد پار سے پاکستانی فورسز پر حملوں کا ذکر اور مذمت تو کی گئی لیکن طیاروں کی مبینہ بمباری کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
اس سے پہلے پاکستان نے اسلام آباد میں طالبان کے ناظم الامور سردار احمد شکیب کو طلب کرکے سرحد پار حملوں اور اس سے پہلے بلوچستان میں سات اپریل کو پاکستانی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر پر افغان سائڈ سے فائرنگ کے واقعہ پر بھی پاکستان نے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایک گولی ہیلی کاپٹر کو لگی تھی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ہیلی کاپٹر میں بلوچستان کے کئی اعلیٰ فوجی حکام سفر کر رہے تھے جو ریکوڈک منصوبہ کو دیکھنے جا رہے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرحد پار سے کارروائیاں ہی حالیہ کشیدگی کا بینادی سبب ہیں۔ ویسے تو افغانستان میں اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتوں کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں رہے اور پاکستان اس وقت مسلسل یہ دعویٰ کرتا رہا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور یہ کہ بھارتی اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کے مسلح مخالفین کی مدد کرتی ہیں۔
کابل کے سابق حکمران پاکستانی الزامات کی تردید کرتے رہے۔ پاکستان اب تو بھارت کا افغانستان کو استعمال کرنے کا بیانیہ بھی استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ بھارت افغانستان سے نکل چکا ہے اور بھارتی سفارت اور قونصل خانے بند پڑے ہیں۔ بھارت کے منصوبوں پرکام بند ہیں اور ان کے تمام شہری بھی افغانستان سے نکل چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان میں اس وقت بھارت کا مسئلہ تو نہیں ہے لیکن ٹی ٹی پی کی شکل میں خطرہ مزید بڑھ گیا ہے اور اس مسئلے کا حل بہت ہی مشکل ہے۔
پاکستان کے لیے یہ چیلنج اس لیے بڑا ہے کیونکہ افغان طالبان افغانستان میں پاکستان کے مخالف مسلح گروپوں کی موجودگی اور کارروائیوں سے متعلق دعووں سے بالکل بھی متفق نہیں۔ افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی ’باختر‘ نے 19 اپریل کو ایک تبصرے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کا معاملہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔
باختر کا کہنا ہے کہ اسلامی امارت ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مسئلے کے اس حل کی حمایت کرتا ہے جو پاکستانی عوام اور خطے کے مفاد میں ہو لیکن ہوائی حملے، میزائل حملے اور افغان مہاجرین پر سیاسی مقاصد کے لیے دباؤ افغان عوام کے جذبات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس سے پاکستان کو احتراز کرنا چاہیے۔
تبصرے میں پاکستان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ مسائل اور غلط فہمیوں کو تعمیری مذاکرات سے حل کرنا چاہیے تاکہ خطے میں امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستان کے لیے افغان طالبان کے ساتھ دوسری مشکل ٹی ٹی پی سے متعلق افغان طالبان کا موقف ہے۔ پاکستانی طالبان افغان طالبان کے امیر کو اپنا امیر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ بیعت کیے ہوئے ہیں۔ اس نظریاتی تعلق کی بنیاد پر افغان طالبان کبھی بھی پاکستان کے لیے پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی نہیں ایکشن لیں گے۔ پاکستان کی جانب سے ٹی ٹٰی پی کو افغانستان میں نشانے بنانے کی پالیسی معاملات کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
خوست میں بمباری سے پاکستان اور طالبان حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے جس نے طالبان حکومت کو بھی ایسی حالت میں مزید ایک مشکل میں ڈال دیا ہے جب وہاں خراب اقتصادی حالت، امریکی پابندیوں، بین الاقوامی تنہائی اور سکیورٹی مسائل طالبان کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔
19 اپریل کو کابل میں ہزارہ کمیونٹی کے سکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان مشکل حالات میں طالبان کو مزید مشکل میں ڈالنا پاکستان کے اپنے اس دیرینہ موقف سے روگردانی تصور کی جائے گی کہ دنیا افغانستان کوانسانی بحران سے بچانے کے لیے اگے بڑھے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو طالبان حکومت سے بہت احتیاط سے چلنا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان حکومت کو بھی پاکستان میں حالیہ دنوں میں بڑھتے حملوں کے نتیجے میں جانی ضیاع پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے۔ طالبان کی ہر وقت تردید والی پالیسی پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ امریکہ، چین، روس، ایران اور مرکزی ایشیا ممالک کی افغان سرزمین پر شدت پسندوں کی موجودگی سے متعلق تشویش موجود ہے۔
دوحہ میں طالبان اور امریکہ معاہدے کے تحت بھی طالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہو۔ طالبان رہنماؤں کے صرف بیانات کافی نہیں۔ اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو دوسروں کی تشویش کو توجہ دینی پڑے گی۔ اگرچہ طالبان کو حالیہ پاکستانی بمباری پرمایوسی ہوئی ہے لیکن پھر بھی افغان سرکاری نیوز ایجنسی کے پاکستان سے تعلقات سے متعلق تبصرے میں اچھے تعلقات اور مسائل کے حل کے لیے دو طرفہ ڈائیلاگ پر زور دیا گیا ہے۔
طالبان حکومت کے رئیس الوزرا یا وزیر اعظم ملا حسن نے شہباز شریف کے نام ایک پیغام میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور ترقی، خوشحالی اور اچھے تعلقات کے لیے راستہ ہموار ہو گا۔
طالبان حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے پاکستان کو بھی حالات کی نزاکت اور طالبان حکومت کی مشکلات کو دیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔