امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ انہیں ’یکم ستمبر سے پہلے‘ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی امید ہے۔ وہ امریکہ کی جانب سے گذشتہ برس طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے بعد اپنے پہلے دورہ افغانستان کے موقعے پر دارالحکومت کابل میں منگل کو بات چیت کررہے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے اپنے غیر اعلانیہ ایک روزہ دورہ افغانستان میں افغان صدر اشرف غنی، افغانستان میں نیٹو مشن اور امریکی فوج کے سربراہ جنرل سکاٹ ملر اور افغانستان کے دوسرے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی۔
اپنی بات چیت میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن امریکہ کی اعلیٰ ترین ترجیح ہے۔ گذشتہ ستمبر میں امریکہ نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے نئی کوششیں شروع کی تھیں جن کا مقصد امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا :’مجھے امید ہے کہ ہم یکم ستمبر سے پہلے امن معاہدہ کر لیں گے۔ یہ یقینی طور پر ہمارا مشن ہے۔‘
اس سے پہلے امریکی حکام نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ آئندہ افغان صدارتی انتخاب سے قبل طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہو جائے گا، جو پہلے ہی دو مرتبہ تاخیر کا شکار ہو چکا ہے اور اب طے ہے کہ ستمبر میں ہو جائے گا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 29 جون کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونا طے ہے۔ بات چیت کا مرکز چار نکات ہیں جن میں انسداد دہشت گردی، غیرملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی، طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات اورمستقل جنگ بندی شامل ہیں۔ طالبان کا اصرار ہے کہ غیرملکی افواج افغانستان سے لازمی طور پر چلی جائیں۔ طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ کابل میں مذاکرات سے انکار کردیا تھا کیونکہ وہ اسے ’کٹھ پتلی ‘ سمجھتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تقریباً تیار ہے جس میں طالبان کے یہ وعدے شامل ہیں کہ وہ افغانستان کو دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردی کے استعمال کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت کی روشنی میں ہم نے غیرملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ یہ موجودگی اس وقت مشروط بنیادوں پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ ہم اپنی فوج افغانستان سے نکالنے کے لیے تیار ہیں۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم ایسا کرنے کے لیے ابھی وقت پر متفق نہیں ہوئے۔
افغان معاشرے کے بڑے حصے کو تشویش ہے کہ امریکہ کے طالبان کے ساتھ معاہدے کی صورت میں اسلامی عسکریت پسند اقتدار پر قبضے کی کوشش کریں گے اور خواتین کے حقوق، ذرائع ابلاغ کی آزادی اور قانونی تحفظ کے میدان میں ہونے والی پیشرفت ختم کردیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اس وقت افغانستان کا دورہ کیا ہے جب ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ علاقائی سطح پر تعطل میں اضافہ ہو رہا ہے اور امریکہ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ ایران کو کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں افغانستان میں امن کے لیے معاہدے کی خاطر امریکی کوششوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
ایران اور افغانستان کے درمیان نو سو کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور پیچیدہ تعلقات چلے آ رہے ہیں۔
1998 میں افغانستان کی سنی طالبان حکومت کے ساتھ جنگ کے قریب تھا اور اس نے 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کی خاموش حمایت کی تھی۔
اب ایران نے طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ افغانستان میں ایرانی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
امریکی حکام نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ طالبان کی امداد کر رہا ہے جس میں کم از کم 2007 سے ٹینک شکن گائیڈڈ میزائلوں اور دوسرے ہتھیاروں کی فراہمی شامل ہے۔
بین الاقوامی کرائیسس گروپ کے کابل میں مقیم مشیر گریم سمتھ نے حال میں ٹویٹ کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ حقیقت اتنی واضح نہ ہو کہ اس کا خبروں میں ذکر ہو لیکن ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں امریکہ کی افغان جنگ سے نکلنے کی کوششوں کے ہزاروں ٹکڑے ہو جائیں گے۔
سابق جنگی کمانڈر گلبدین حکمت یار نے ہفتے کو پاکستان میں ہونے والی کانفرنس کے موقعے پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ امریکہ کی ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں افغانستان میں امن کا عمل متاثر ہوگا۔