ایک اتوار کی صبح 12 سالہ حذیفہ خان کراچی کی فرنٹیئر کالونی کی تنگ گلیوں میں پورٹیبل مائیکرو فون تھامے اپنے والد کے ساتھ مچھلیوں سے بھری ریڑھی لے جا رہے تھے۔
یہ دونوں بندرگاہ کی مصروف سی فوڈ مارکیٹ سے تازہ مچھلی خرید کر محلے کی دکانوں میں فروخت کرنے اور گھروں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔
راستے میں حذیفہ اپنی اور والد کے درمیان ہوئی گفتگو ریکارڈ کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔
وہ اپنی ویڈیوز میں بطور مچھلی فروش، چھوٹے کاروباری شخص اور کراچی کی تنگ گلیوں میں روزگار کی جدوجہد کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
یہ ویڈیوز، جو حذیفہ نے گذشتہ سال فروری میں پوسٹ کرنا شروع کیں، انہیں انٹرنیٹ کا سٹار بنا چکی ہیں۔
’خان وی لاگز 240‘ کے نام سے انسٹاگرام پر اپ لوڈ کیے گئے وی لاگز ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں میں ویوز حاصل کر چکے ہیں۔
کمنٹس میں لوگ ان کی اور ان کے والد کی محنت کو سراہ رہے ہیں، جو ایمان داری سے روزی کمانے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
حذیفہ نے عرب نیوز کو بتایا: ’پہلے میرے والد یہاں (مچھلی منڈی) سے مچھلی خرید کر صرف ریڑھی پر بیچتے تھے لیکن جب سے آن لائن آرڈر آنے لگے ہیں، ہم گھروں پر بھی ڈیلیوری دینے لگے ہیں۔
’لوگ ہمیں کال کر کے کسی مخصوص مچھلی کا پوچھتے ہیں تو ہم انہیں وہی مچھلی لا کر دیتے ہیں۔‘
مچھلی بیچنا آسان کام نہیں، خاص طور پر جب کوئی طالب علم بھی ہو اور ساتھ میں وی لاگر بھی۔
حذیفہ کا کہنا ہے کہ وہ ہر روز فجر کے وقت بیدار ہو کر نماز پڑھتے ہیں پھر سکول سے واپسی پر دوپہر کے وقت والد کے ساتھ مچھلی فروخت کرتے ہیں۔
ہفتے کے آخر میں جب سکول کی چھٹی ہوتی ہے تو وہ والد اور بڑے بھائی طلحہ عبید کے ساتھ صبح سویرے 14 کلومیٹر دور مچھلی مارکیٹ جاتے ہیں تاکہ وہاں سے تازہ مچھلی خرید سکیں۔
شام کے وقت وہ والد اور بھائی کے ساتھ فرنچ فرائز کی فروخت میں بھی مدد کرتے ہیں۔مگر ان کے خواب محض مچھلی فروشی تک محدود نہیں۔ وہ انجینیئر بننے کے لیے پرعزم ہیں۔
حذیفہ کے سوشل میڈیا سفر کا آغاز اکتوبر 2023 میں ہوا جب ان کا خاندان سوات کے ایک دور دراز گاؤں سے کراچی کے ساحلی شہر منتقل ہوا۔
انہوں نے اپنی پہلی ویڈیو، جس کا عنوان ’چھوٹی سی دکان‘ تھا، فروری 2024 میں پوسٹ کی۔ تب سے وہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر سینکڑوں ویڈیوز اپ لوڈ کر چکے ہیں۔
حذیفہ کے بقول: ’اب جب میں ویڈیوز بنا رہا ہوتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران وہ ریڑھی پر رکھی مچھلیوں پر بیٹھنے والی مکھیوں کو ہاتھ سے ہٹانے میں مصروف رہے۔
شام کے وقت جب فرنچ فرائز کے سٹال پر مداح ان سے ملنے آتے ہیں تو حذیفہ شاذ و نادر ہی کسی کو مایوس کرتے ہیں۔
’جب میرے فینز آتے ہیں اور سیلفیاں لیتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘
لیکن سوشل میڈیا پر ملنے والی شہرت کے باوجود یہ کم عمر مچھلی فروش تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں۔
ان کے والد نادر خان، جن کے دو اور بچے بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ حذیفہ پر تعلیم کو نظر انداز نہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔
نادر کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تعلیم ہے۔ پہلے پڑھائی، پھر کام۔‘ انہوں نے بیٹے کو ملنے والی پہچان پر شکر گزاری کا اظہار کیا۔
’مجھے بہت خوشی ہے اللہ نے اسے اتنی عزت دی۔ وہ پوری دنیا کی سکرینوں پر آتا ہے۔ جب وہ میرے ساتھ ویڈیوز بناتا ہے اور میرا انٹرویو لیتا ہے تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘
حذیفہ کو امید ہے کہ ایک دن وہ اپنے والد کے احسانات کا بدلہ چکائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو اپنے والد کو کام نہیں کرنے دوں گا۔ بس انہیں آرام دوں گا۔
’میں پیسے کماؤں گا اور انہیں دوں گا اور پھر اپنے والد اور ماں سے کہوں گا کہ وہ بس بیٹھیں اور آرام کریں۔‘