ڈالر کی قیمت کو پر لگے تو سونا بھی پیچھے نہ رہا۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت بڑھی تو پاکستان میں بھی فی تولہ سونے کی قیمت 80 ہزار پانچ سو روپے کی ریکارڈ سطح تک جا پہنچی۔ سونے کی یہ اڑان یہیں نہیں رکی، بلکہ صرافہ مارکیٹ کے سناروں کے مطابق یہ قیمت آئندہ چند روز میں ایک لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر جائےگی۔
محمد جعفر آباواجداد کے زمانے سے سونے کے زیوارات بنانے کے کام سے منسلک ہیں۔ مگر اب انہوں نے سوچ لیا ہے کہ یہ اپنی اگلی نسل کو اس کاروبار میں نہیں لائیں گے۔ انڈپینڈنٹ ادرو سے بات کرتے ہوئے جعفر کا کہنا تھا: جناب نہانے والا صابن 50 روپے سے 70 روپے کا ہوگیا ہے اب تو بنیادی اشیاء ضروریات عوام کے ہاتھوں سے نکل گئیں ہیں وہ سونا کیا خریدیں گے؟ پہلے لوگ آتے تھے سونے میں سرمایہ کاری کرتے تھے، خالص سونے کے سیٹ بنوا کر رکھ لیتے تھے تاکہ جب بیچنے جائیں تو کٹوتی زیادہ نہ ہو مگر اب لوگوں کے پاس پیسے ہی نہیں کہ سونے میں سرمایہ کاری کریں۔ جعفر کہتے ہیں کہ اب ان کے پاس سونے کے خریدار بہت کم آتے ہیں بلکہ جب سے سونے کی قیمت بڑھنی شروع ہوئی ہے ان کے پاس سونا بیچنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ جو لوگ پہلے سات تولہ سونا خریدتے تھے اب وہ تین تولہ ہی خرید نے کی سکت رکھتے ہیں جبکہ تین تولہ خریدنے والے کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں سونے کی قیمت میں اتنا اضافہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جب زرداری صاحب کی حکومت تھی تب یہ 64 ہزار روپے سے 70 ہزار روپے فی تولہ کی ریکارڈ سطح پر گیا تھا مگر اس کے بعد پچھلے دور حکومت میں فی تولہ قیمت 47 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک پہنچی اور کافی عرصے تک یہیں مستحکم رہی مگر 2018 کے انتخابات کے بعد ہی چوبیس قیراط سونے کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملا جو اب تقریباً دو گنا بڑھ چکا ہے اور ابھی یہ مزید بڑھے گا۔
جعفر کہتے ہیں کہ عید کے بعد شادیوں اور منگنیوں کا سیزن چلتا ہے جس میں ہماری اچھی کمائی ہو جاتی ہے مگر اس بار اس میں بھی مندی رہی۔ ہمارے زیادہ تر لوگ متوسط اور نوکری پیشہ ہیں وہ اب سونا خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے، امیر تو چند لوگ ہی ہیں جو شادیوں پر زیادہ زیور بنواتے ہیں اس لیے اب گاہک ایک سیٹ سونے کا بنوا لیتا ہے باقی وہ مصنوعی زیور خریدنے کو ترجیح دیتا ہے کہ چلو پتہ نہیں چلے گا اور خاندان میں عزت بھی رہ جائے گی۔ جعفر کہتے ہیں کہ بڑے سیٹ بنوانے کے علاوہ وہ گاہک جو چھوٹی موٹی چیزیں جیسے چین، کانوں کے ٹاپس یا انگوٹھیاں وغیرہ بنواتے یا خرید لیتے تھے اب وہ تو بالکل ہی ختم ہوگیا۔ عوام میں اس کی بھی سکت باقی نہیں رہی۔ ہمارا کاروبار تو اب نقصان میں ہی جارہا ہے۔
دوسری جانب صرافہ بازار کے ایک اور سنار کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی نہیں ہے۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے وہ آج کل سونے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور خالص سونا خرید رہے ہیں تاکہ آنے والے وقتوں میں اسے مہنگے داموں بیچ کر کر منافع کما سکیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ سونا ایک ایسی چیز ہے جو آپ بینک کے لاکر میں رکھتے ہیں اور اسے اپنے ٹیکس گوشواروں میں بھی بآسانی چھپا سکتے ہیں یعنی ظاہر نہ بھی کریں تو کوئی حرج نہیں ۔ جن لوگوں کے پاس ایسا پیسہ ہے جو وہ اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کرنا چاہتے وہ اس سے سونا خرید کر بینک کے لاکر میں رکھ لیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اسے بیچ کر اپنی مالی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
قمرالنساء خان پکھراج کے نام سے ایک جیولری برینڈ چلاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے کاروبار کا آغاز چند برس پہلے پاکستان میں تب کیا جب سونے کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوئیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے قمر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے تو اپنے لیے چاندی اور پیتل میں زیور بنانا شروع کیے کیونکہ چوری کے ڈر سے ان کے گھر والے انہیں سونے کا زیور پہننے نہیں دیتے تھے مگر پھر دوست احباب نے بھی ان سے فرمائش کر ڈالی اور اس طرح وہ اس کاروبار سے منسلک ہوگئیں۔ قمر کے مطابق آرٹیفیشل جیولری کی جانب وہ لوگ زیادہ آرہے ہیں جو سونا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں چیز سستی بھی ملے اور وہ دیکھنے میں بھی اچھی لگے۔ قمر کے بنائے زیورات کی قیمت 2 ہزار روپے سے لے کر 50 ہزار روپے تک ہے اب وہ اپنے زیورات میں اصلی پتھر اور سونے کا پانی بھی استعمال کرتی ہیں۔ قمر کہتی ہیں کہ ان کے کلائنٹس میں وہ امراء بھی شامل ہیں جو اصلی پتھروں کا شوق رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سونے میں جڑے ہوں۔ اس لیے وہ چاندی یا پیتل کے زیور بنوا کر اس پر 11 سے 24 گرام تک سونےکا پانی چڑھوا لیتے ہیں۔ دوسری جانب ان کے پاس ایسے امرا بھی آتے ہیں جن کے پاس بے تحاشہ سونا ہے مگر چوری کے ڈر سے وہ لاکر سے باہر نہیں نکالتے اور اپنے سونے کے زیورات جیسے آرٹیفیشل سیٹ بنوا لیتے ہیں تاکہ شادی بیاہ پر پہن سکیں۔ قمر کے مطابق جس طرح لوگ بڑے برینڈز کے بیگز ، جوتے یا کپڑے لیتے ہیں اسی طرح برینڈڈ جیولری بھی مستقبل میں منافع چھوڑے گی گو کہ یہ منافع اصلی سونے کے بنے زیورات جیسا تو نہیں ہوگا مگر بیچنے والا فائدے میں ہی رہے گا۔
ایک اور برینڈڈ جیولری بنانے والی خاتون نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس ایسے کلائنٹس بھی آتے ہیں جن کے زیور دیکھ کر ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ خاندانی رئیس ہیں کیونکہ ان کے زیور پشتوں سے چلے آ رہے ہوتے ہیں اور زیور کا کام بتا دیتا ہے کہ وہ کتنا پرانا ہے مگر ساتھ ہی ہمارے پاس نو دولتیے بھی آتے ہیں جن کے پاس بلیک منی ہوتا ہے اور وہ ہم سے سونے کا ایسا زیور بنواتے ہیں جسے دیکھ کر یہ لگے کہ وہ ان کا پشتینی زیور ہے یعنی وہ یہ کہہ سکیں کہ یہ زیور ان کے پرنانی یا پردادی کے زمانے سے خاندان میں چلتا آرہا ہے اس طرح وہ اپنے بلیک منی کو وائٹ کر لیتے ہیں اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی پکڑ سے بھی بچ جاتے ہیں اور پیسہ بھی انویسٹ کر لیتے ہیں۔
انارکلی میں آرٹیفشل زیورات کا کام کرنے والے احمد سلمان کہتے ہیں کہ وہ لوگ جن کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے وہ سونا خریدنے کی سکت تو کافی عرصہ سے کھو چکے ہیں اس لیے شادی بیاہوں پر ہم سے سستے زیور لیتے ہیں جو میچنگ کر کے اپنے مختلف کپڑوں کے ساتھ پہن سکیں۔ ان زیورات کی قیمت ایک ہزار روپے سے دس ہزار روپے تک بھی ہوتی ہے مگر ان کی عمر کم ہوتی ہے۔ یہ کم کوالٹی والے میٹیریل میں بنتے ہیں اور جلد خراب بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر اب لوگوں کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
ماہر اقتصادیات اکرام الحق کہتے ہیں کہ کہ سونا کسی زمانے میں کرنسی چھاپنے کے پیچھے ریزروو کا کام کرتا تھا مگر اب یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے کیونکہ اب حکومتوں کو، خاص طور ہر ہمارے جیسی حکومت کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے تو وہ نوٹ چھاپ دیتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اب ہم آئی ایم ایف کے ڈسپلن میں داخل ہو چکے ہیں اور صرف فائنل اپروول ہونی ہے تو ہمیں ان چیزوں سے اب اجتناب کرنا پڑے گا اور افراط زر کو کنٹرول کرنا پڑے گا جس کے لیے سٹیٹ بینک پہلے سے ہی ڈسکاونٹ ریٹ کو بہت اوپر لے جا چکا ہے۔ حکومت پر بھی یہ پابندی لگادی گئی ہے کہ وہ اب سٹیٹ بینک سے پیسہ نہیں لے گی۔ لہذا نئی کرنسی چھاپنے کی اس حد تک ضرورت نہیں ہوگی جیسے پہلے تھی۔ ظاہر ہے کہ اب وہ صرف کمرشل بینکوں سے ہی لون حاصل کر سکیں گےجہاں تک کرنسی اور سونے کی صورتحال کا تعلق ہے تو ڈالر 161 روپے تک پہنچ گیا ہے، گویا کہ اب آنے والے دنوں میں سونے کی قیمت بھی بڑھتے ہوئے دیکھیں گے اور ڈالر کو بھی مزید مہنگا ہوتا ہوا پائیں گے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے جو مشکلات ہیں وہ یہ ہیں کہ ہماری امپورٹس مہنگی ہوں گی، بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوگا گیس کی قیمت بڑھے گی اور کمرشل اداروں اور کمپنیوں میں مقابلے یا مسابقت کا جذبہ ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی معیشت کو مستحکم ہوتے ہوئے بھی کم از کم دو سے تین برس چاہیے ہوں گے۔