پاکستان سے بھکاری کن ممالک کا اور کیسے رخ کرتے ہیں؟

سابق چیئرمین ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن پاکستان آغا طارق سراج کے مطابق سب سے زیادہ پیشہ ور بھیکاری پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سعودی عرب، دبئی یا قطر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان کے اندر اور بیرون ملک پیشہ ور بھکاریوں کا معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے جہاں حکام کے مطابق ایک طرف بھکاریوں کی بیرون ملک روانگی پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب مقامی سطح پر بھی پکڑ دھکڑ تیز کر دی گئی ہے۔

اس سب کے علاوہ پاکستانی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ مختلف ممالک میں پکڑے جانے والے پیشہ ور بھکاریوں کو بھی ملک بدر کر کے واپس بھیجا جا رہا ہے۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے حکام کے مطابق رواں سال تین ماہ کے دوران ملک بھر کے ایئر پورٹس سے مختلف ممالک روانگی کی کوشش میں ’سات ہزار سے زائد افراد کو آف لوڈ‘ کیا گیا، جن میں کراچی اور لاہور سمیت مختلف ہوائی اڈوں سے دوسرے ممالک جانے والے ’تین سو کے قریب بھکاریوں کو گرفتار‘ کیا گیا ہے۔

انسانی سمگلنگ سیل میں کام کرنے والے ایف آئی اے کے سابق افسر سجاد مصطفیٰ باجوہ نے کہا کہ ’پیشہ ور بھیکاری زیادہ تر ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں پاکستانیوں کی انٹری آسان ہو اور زیارات موجود ہوں۔

’اسی لیے سب سے زیادہ پیشہ ور بھیکاری مشرق وسطیٰ اور رشین سٹیٹس کا رخ کرتے ہیں۔ جب ایتھوپیا جیسے بدحال ملک سے بھی پاکستانی بھکاریوں کو پکڑ کر ملک بدر کیا گیا تو وہاں ہمارے سفارت کار کو بھی شرمندگی ہوئی۔‘

سابق چیئرمین ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن پاکستان آغا طارق سراج نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سب سے زیادہ پیشہ ور بھیکاری پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سعودی عرب، دبئی یا قطر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

’اس لیے ہم نے بھی اپنے طور سختی کر رکھی ہے تاکہ ایسے لوگوں کو ویزہ اور ٹکٹ نہ دیا جائے جو ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہوں۔‘

ترجمان پاکستان کوسٹ گارڈز کے مطابق ایک سو 32 غیرقانونی تارکین وطن کو یکم فروری سے 18 مارچ کے دوران بلوچستان کے بارڈر سے گرفتار کیا گیا، یہ تمام افراد بغیر کسی قانونی دستاویزات اور راہ داری کے غیرقانونی طریقے سے ایران سے پاکستان اور پاکستان سے ایران سفر کر رہے تھے۔

وزارت خارجہ کی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی میں دی گئی بریفنگ کے مطابق بہت سے بھکاری ویزوں کا فائدہ اٹھا کر سعودی عرب، ایران اور عراق جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ بھیک مانگنے لگتے ہیں۔

پیشہ ور بھیکاری کس طرح بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں؟

ایف آئی اے حکام کے مطابق گذشتہ تین ماہ کے دوران غیرقانونی دستاویزات یا مشکوک سمجھ کر کراچی، سیالکوٹ، ملتان، فیصل آباد سے چار ہزار جبکہ لاہور ائیر پورٹ سے تین ہزار کے قریب مسافروں کو جہاز پر سوار ہونے سے روکا گیا ہے۔

’ان میں سے تین سو سے زائد پیشہ ور بھیکاری تھے جنہیں گرفتار کر کے ایف آئی اے نے ہیومن ٹریفکنگ سیل منتقل کر کے قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے سابق ایف آئی اے افسر سجاد مصطفیٰ باجوہ کہتے ہیں کہ ’ملک کے اندر اور بیرون ملک جا کر گداگری ویسے تو عرصہ دراز سے منظم طریقے سے کی جا رہی ہے، لیکن ملکی کرنسی کم ہونے پر پیشہ ور بھیکاری ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جس کرنسی کی ویلیو زیادہ ہوتی ہے۔

’یہ گروپوں کی شکل میں سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی منظم گروہ باقائدہ سرپرستی کر رہے ہیں۔ یہ ورکنگ ویزہ یا وزٹ ویزہ حاصل کرتے ہیں اور پھر سعودی عرب سمیت مختلف ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’دنیا بھر میں جہاں بھی بھکاریوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے وہاں سب سے زیادہ کا تعلق پاکستان سے ہی نکلتا ہے۔‘

سجاد مصطفیٰ باجوہ کے مطابق ’کچھ سال پہلے ہمیں ایتھوپیا کے پاکستانی سفارت کار کی کال آئی کہ وہاں درجنوں پاکستانی بھیک مانگنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے ہیں۔ انہیں ملک بدر کیا جا رہا ہے لہذا انہیں ہم نے ایئر پورٹ سے حراست میں لیا۔ اس وقت ہمیں بہت شرمندگی ہوئی کہ ایسے بدحال ملک میں بھی پاکستانی بھیک مانگتے پکڑے گئے۔‘

’انسانی سمگلنگ کرنے والے انہیں منظم کر کے گروپ بنا کر لے جاتے ہیں۔ ان کی آپس میں کمائی کی شرح طے ہوتی ہے کہ بھیکاری کو کتنا ملے گا اور بھیجنے والے کا کتنا حصہ ہوگا۔ ان کے بیرون ملک جانے کے اخراجات بھی انسانی سمگلنگ کا دھندہ کرنے والے اٹھاتے ہیں۔ یہ زیادہ تر دستاویزات بنوا کر ایئر پورٹ سے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ یورپ سمیت دیگر ممالک جہاں انٹری سخت ہے وہاں دیگر راستوں سے بھجوائے جاتے ہیں۔‘

ایف آئی اے کے سابق افسر نے مزید کہا کہ ’جب ایف آئی اے چیک کرتی ہے تو شک پڑنے پر انہیں آف لوڈ کر کے گرفتار کر لیا جاتا ہے، لیکن سخت سزائیں نہ ملنے پر یہ رہا ہو جاتے ہیں اور دوبارہ یہی کام شروع کر دیتے ہیں۔‘

سابق چیئرمین ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن پاکستان آغا طارق سراج کے بقول ’بہت سے بھیکاری وزٹ ویزے یا عمرے کا ویزہ لگوا کر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اب سعودی عرب، دبئی، قطر نے گداگروں کا راستہ روکنے کے لیے قوانین سخت کر دیے ہیں۔ لہذا ہم بھی اپنے طور پر ایسے لوگوں کو ویزے یا ٹکٹ نہیں دلوا رہے جن کے وہاں جا کر غائب ہونے یا بھیک مانگنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

’ہم نے پالیسی بنا رکھی ہے کہ کسی اکیلے نوجوان مرد یا خاتون کو ویزہ جاری نہ کروائیں۔ ایسے مشکوک افراد کا زیادہ تر تعلق پسماندہ علاقوں سے ہوتا ہے جو لاہور یا کراچی جیسے بڑے شہروں سے ویزے لگوا کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

گداگری پر بیرون ممالک سے ملک بدری

ایف آئی اے رپورٹس کے مطابق مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں بھیک مانگنے کے جرم میں مختلف ممالک سے گرفتار پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔

ان رپورٹس کے مطابق ملائشیا سے گذشتہ چند روز کے دوران 41 پاکستانی بھکاریوں کو بے دخل کیا گیا۔ ان بھکاریوں میں 26 خواتین بھی شامل ہیں جن میں سے 16 کا تعلق سندھ کے ضلع  کشمور سے ہے۔ بیشتر بھکاری رحیم یار خان، فیصل آباد، صادق آباد اور لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایف آئی اے ترجمان کے مطابق سعودی عرب اور امارات سے گذشتہ 45 دن کے دوران ایک سو 39 بھکاریوں کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے نعمان صدیقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’بھکاریوں کے خلاف مختلف ممالک کے علاوہ پاکستان میں بھی سخت منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی بھکاریوں کے پورے خاندانوں کو بین الاقوامی سفر کے لیے کم از کم پانچ سال کے لیے بلیک لسٹ کیا جائے، تاکہ اگر ایک بھکاری کو بلیک لسٹ کریں گے تو اس کا بھائی، بھتیجا یا کوئی اور رشتے دار اس دھندے کے لیے سفر نہیں کر سکے گا۔‘

پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف قانونی حکمت عملی

حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھکاریوں کے خلاف کافی عرصے سے کریک ڈاؤن کیا رہا ہے۔ پنجاب میں بچوں سے بھیک منگوانے پر بڑے مرد و خواتین کو گرفتار جبکہ بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

لیکن اب اس معاملے پر وفاقی و پنجاب حکومت خاصی سنجیدگی سے قانون سازی پر مجبور ہو چکی ہے۔

بیرون ملک پاکستانی بھکاریوں کی روک تھام کے لیے وزارتِ داخلہ نے کچھ عرصہ پہلے ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا ہے، جس میں منظم بھیک مانگنے کی تعریف بیان کی گئی ہے اور اسے فراڈ قرار دیا گیا ہے، جس میں زور زبردستی سے بھیک منگوانا یا خیرات لینا، زبردستی ورغلا کر یا لالچ دے کر خیرات لینا شاملِ تصور ہو گا۔

بل کے مطابق منظم بھیک مانگنا کسی عوامی مقام پر خیرات مانگنا یا وصول کرنا ہے، قسمت کا حال بتا کر کرتب دکھا کر بھیک مانگنا بھی منظم بھیک مانگنا قرار دیا گیا ہے، منظم بھیک مانگنے سے مراد بہانے سے اشیا فروخت کرنا بھی ہے۔

اس بل ترمیمی بل کے مطابق منظم بھیک مانگنے، اس کے لیے بھرتی، پناہ دینا یا منتقلی پر سات سال تک قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ گاڑیوں کی ونڈو پر دستک، زبردستی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنا، منظم بھیک مانگنا ہے، روزگار کے بغیر گھومتے رہنا، تاثر دینا کہ گزارا بھیک پر ہے، یہ بھی منظم بھیک مانگنا تصور ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان