یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بالخصوص حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی والی ریاستوں میں آج کل بل ڈوزر پالیسی کے اطلاق پر مقابلہ بازی شروع ہو چکی ہے جس کے تحت غریب اور بےبس اقلیتوں کے مکانات، دکانیں یا املاک کو منہدم کیا جا رہا ہے۔
اگر جمعیت علمائے اسلام نے اس نئی بربریت کے خلاف عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا ہوتا تو مدھیہ پردیش، گجرات، آندھرا اور دہلی کے بعد دوسری ریاستوں میں بھی بل ڈوزروں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہوتی حالانکہ دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں درجنوں املاک کو عدالت کے جاری کردہ حکم امتناعی کے باوجود منہدم کیا جا رہا تھا۔
پولیس اور سرکاری اہلکاروں کی موجودگی میں ہندوستان کی بائیں بازو کی رہنما برندا کارت دوڑے دوڑے جہانگیر پوری حکم نامہ لے کر پہنچی لیکن اس وقت تک درجنوں غریبوں کی جھونپڑیاں اور دکانیں مٹی کا ڈھیر بنا دیے گئے تھے۔
بل ڈوزر پالیسی کے خالق اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتیہ ناتھ ہیں جنہیں مسلم مخالف پالیسیوں کے نتیجے میں دوسری بار حکمرانی کرنے کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ ان کو اپنے ہندوتوا کارکن ’بل ڈوزر بابا‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شو راج چوہان نے رام نومی کے جلسوں کے دوران ہندو مسلم فسادات کے بعد کھرگون علاقے میں بل ڈوزر سے مسجد اور مسلموں کے مکانوں کو انہدام کروا کے اب ’بل ڈوزر ماما‘ کا خطاب حاصل کیا ہے۔
دوسری ریاستوں کے رہنما اب نئے نئے خطاب تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔
بھارت میں کہیں پر بھی کسی دلت یا مسلمان کو سبق سکھانا ہو تو ہندوتوا کے کارکن بل ڈوزر لے کر پہنچ جاتے ہیں، جب کہ پولیس ایک تماشائی کی طرح دیکھتی رہ جاتی ہے۔
یوگی نے بل ڈوزر کا استعمال ریاست میں بقول ان کے امن عامہ قائم کرنے کے لیے کیا تھا جس کے بارے میں بیشتر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ وہ آئین، قوانین ، پولیس یا عدالتوں کے بجائے اپنا ڈاکٹرنdoctrine قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اتر پردیش میں بلیک آوٹ کی جانے والی خبروں کے باوجود یہ خبریں سوشل میڈیا پر آتی رہتی ہیں کہ بعض مسلمان ہندو آبادی والے علاقوں سے نقل مکانی کرکے دوسری مسلم آبادی والی بستیوں میں جا رہے ہیں مگر ہزاروں کی تعداد میں روزگار چھن جانے کی وجہ سے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ہندوتوا کارکنوں نے ان مسلمانوں کو روہنگیا یا بنگلہ دیشی پناہ گزین قرار دیا ہے حالانکہ یہ صدیوں سے ہندوستان میں آباد ہیں۔
بیشتر علاقوں میں مسلموں کی دکانوں یا ریڈ یوں سے خریدو فروخت نہ کرنے کی مہم بھی چلائی گئی، حتیٰ کہ بعض کٹر ہندوؤں نے مسلم عورتوں کی عصمت دری کرکے ہندو بچے پیدا کرنے کی صلاح بھی دے دی۔ اس پر بعض لبرل ہندو سوشل میڈیا پر ایک آدھ ٹویٹ کر کے خود کو اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو گئے۔
مختلف ریاستوں میں فسادات اور مسلم کش دنگے دیکھ کر بھی وزیراعظم ہند نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا بلکہ برطانیہ کے وزیراعظم کو بھی بل ڈوزر پر بٹھا کر ان کی سبکی کرائی۔
نسل کشی پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ’جینوسائیڈ واچ‘ کے سربراہ گریگری سٹینٹن نے پہلے ہی اس بات کی پیش گوئی کر رکھی ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کی نسل کشُی شروع ہونے والی ہے جس پر امریکی کانگریس میں اراکین پارلیمان نے کئی اجلاس بھی بلائے، البتہ اس پر ابھی تک کھل کر حکومت ہندوستان کو تنبیہ نہیں کی گئی ہے۔
چند روز پہلے ایک امریکی چینل پر سٹینٹن نے پھر ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ہٹلر کی یہودیوں کے خلاف پالیسی کے عین مطابق قرار دیا۔
لکھنؤ کے سوشل میڈیا کارکن آدیتیہ کھجوریہ کہتے ہیں: ’مدھیہ پردیش یا گجرات یا دہلی میں رام نومی کے ہندو جلسوں میں پہلی بار ہتھیار کی نمائش کی گئی، تلواریں لہرائی گئیں، مسلمانوں کے خلاف کھل کر نعرے بازی کی گئی اور مسجدوں کے سامنے اذان کے وقت ہنومان چالیسا پڑھا گیا جو ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا ہے جس کا آئین اب بھی سیکولر ہے اور دنیا سیکیولر روایات کی وجہ سے اس ملک کو ایک بڑی جمہوریت سے تعبیر کرتی ہے۔‘
بقول صحافی شاہد مضطر ’بی جے پی کے کارکن سمجھتے ہیں کہ یوگی نے اتر پردیش میں بل ڈوزر چلا کر مسلمانوں کو خوب ڈرایا اور دھمکایا، ہندووتوا کو مضبوط کر کے دوسری بار انتخابات بھی جیتے ہیں، اس بات کے ہیش نظر دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اس پالیسی کو اپنا کر 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے لیے زمین ہموار کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں فسادات اور مسلم کش دنگے دیکھ کر بھی وزیراعظم ہند نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا بلکہ برطانیہ کے وزیراعظم کو بھی بل ڈوزر پر بٹھا کر ان کی سبکی کرائی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیکھا جائے تو املاک یا مکانات کو منہدم کرنے کی اس نئی پالیسی کا آغاز کشمیر سے ہوا جہاں نہ صرف مکانات کو بارود سے اڑایا جاتا ہے بلکہ مکینوں سمیت مکانات کو کوئلے میں تبدیل بھی کیا جاتا رہا ہے۔
کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پر ہندوستانی مسلمان اکثر خاموشی اختیار کیا کرتے تھے لیکن کشمیری مسلمان ہندوستانی مسلمان کی موجودہ حالات پر خون کے آنسو روتا ہے۔
حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں میں اب یہ مقابلہ چل رہا ہے کہ وہ کتنی کٹر ہندو ہے، کتنی بار سیاست دان مندر میں ماتھا ٹیکنے کے لیے جاتے ہیں، کس کو ہنومان چالیسا یاد ہے اور بھگوا رنگ کے پیرہن میں کون اپنے ہندو ہونے کا پرچار کرتا ہے۔
گو کہ عالمی میڈیا ہندوستان میں اقلیت کے ساتھ ہونے والی اس بربریت کی داستان کو رقم کرتا رہا ہے لیکن مغربی ملکوں کے سربراہوں کی نظریں اب بھی سوا ارب آبادی کی مارکیٹ پر ٹکی ہوئی ہیں۔
اس وقت روس یوکرین جنگ کے نتیجے میں ہندوستان کی حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ روس سے علیحدہ ہو جائے اور چین کے خلاف منظم ہوکر مغربی ملکوں کی صف میں شامل ہو جائے جس کے بدلے میں اس کی اندرونی صورت حال کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
اکثر امیر ترین مسلمان ممالک بھی ہندوتوا کی گود میں بیٹھے ہیں جنہیں مغربی ملکوں سے زیادہ ہندوستان کی تجارتی لین دین میں دلچسپی ہے لہٰذا انہیں 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی زیادتیاں دکھائی نہیں دیتیں۔
یہ المیہ ہے مسلم دنیا کا کہ جس کے سربراہاں سب سے زیادہ بےحسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں کو گو کہ مسلم امّہ سے کوئی امید تو نہیں ہے لیکن کیا ہندوستان کے لبرل اور سیکیولر ہندو اقلیت مخالف پالیسی کو روکنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے؟
یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اور اس کا جواب ہندوستان کی سپریم کورٹ پر بھی منحصر ہے جہاں چند دنوں میں جمعیت علمائے اسلام کی درخواست پر سماعت شروع ہو رہی ہے اور جس کی ترازو پر 20 کروڑ مسلمانوں کی تقدیر لٹک رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔