پاکستان میں مارچ کا مہینہ گذشتہ چھ دہائیوں میں گرم ترین رہنے کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ گرمی کے باعث شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئر پگھلنے سے دریاؤں میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگا، مگر ایسا نہیں ہوا اور ملک کے دریاؤں میں پانی کی قلت ہے، جس سے خدشہ ہے کہ خریف کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔
انڈس ریور اتھارٹی سسٹم (ارسا) کے اعداد و شمار کے مطابق یکم مئی کو سندھ اور پنجاب دونوں کو 51، 51 فیصد پانی کی کمی کا سامنا تھا۔
ارسا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی طلب ایک لاکھ پانچ ہزار 500 کیوبک فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) ہے، مگر پنجاب کو اس کا تقریباً نصف یعنی صرف 51 ہزار 400 کیوسک پانی فراہم ہوا۔ جبکہ سندھ کی طلب 67 ہزار 100 کیوسک ہے، مگر سندھ کو 32 ہزار 600 کیوسک پانی فراہم کیا گیا۔
انچارچ کنٹرول روم سکھر بیراج عبدالعزیز سومرو نے پاکستان کے تمام صوبوں میں پانی کی تقسیم، ظوابط رکھنے اور نگرانی کرنے والے ادارے ارسا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل واپڈا نے تربیلا ڈیم کے ٹنل فور پر کچھ تعمیراتی کام کرنے کے لیے ڈیم کا پانی نکال دیا اور ڈیم فروری میں مکمل طور پر خالی ہوگیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالعزیز سومرو نے سوال اٹھایا: ’ارسا نے اس وقت کوئی منصوبہ بندی کی کہ مارچ یا اپریل میں جب پانی کی قلت ہوگی تو اس وقت کیا کیا جائے گا؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کے پاس دیگر دریا بھی ہیں اور پنجاب کے زیر زمین پانی کی مقدار بھی زیادہ ہے اور وہ پانی سندھ کی نسبت میٹھا بھی ہے، مگر سندھ کے پاس پانی کا واحد ذریعہ دریائے سندھ ہے اور دریائے سندھ میں پانی کا سب سے بڑا ذریعہ تربیلا ڈیم ہے، جو مکمل طور پر خالی ہے۔ اس سے سندھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔‘
عبدالعزیز سومرو کا کہنا تھا کہ پانی کی شدید قلت کے باوجود ارسا نے تاحال کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی کہ صوبوں کو کیا کرنا چاہیے اور یہ صورت حال کب بہتر ہوگی۔
سندھ میں کاشت کاروں کی تنظیم سندھ آبادگار بورڈ کے مرکزی رہنما محمود نواز شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تربیلا ڈیم میں تعمیراتی کام کے لیے ڈیم کو خالی کرنے لیے اس وقت پانی چھوڑا گیا، جب اس پانی کی ضرورت ہی نہیں تھی اور اب جب ضرورت ہے تو ڈیم میں پانی نہیں ہے۔
دوسری جانب ارسا کے ترجمان خالد ادریس رانا نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ارسا نے دو روز قبل ہی ایڈوائیزری جاری کی ہے۔
خالد ادریس رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'تربیلا ڈیم میں تعمیراتی کام کرنا بھی ضروری تھا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اُس وقت صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا یا اس پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ تربیلا ڈیم میں کام کی اجازت دینے سے پہلے ارسا کی ایڈوائیزری کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا تھا، جس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت کے اسباب کچھ اور ہیں۔
پانی کی قلت مسلسل کیوں؟
اس حوالے سے خالد ادریس رانا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گذشتہ تین، چار سالوں سے اپریل کے پہلے ہفتے سے ہی ملک میں پانی کی قلت ہوجاتی ہے، جس کے کئی اسباب ہیں، جیسے کم بارشیں اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت کا متوازن نہ رہنا۔
ان کے مطابق: ’اس سال مارچ میں ریکارڈ درجہ حرارت دیکھا گیا، مگر شمالی علاقہ جات، جہاں گلیشیئر ہیں، وہاں کا درجہ حرارت متوازن نہ رہنے سے گلیشیئر نہیں پگھل رہے اور دریا میں پانی نہیں آرہا۔ سکردو میں ایک دن درجہ حرارت 25 ڈگری سیلسیئس ہوتا ہے تو دوسرے دن 18 اور تیسرے دن 12۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس کے علاوہ پاکستان میں اب پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پاکستان کے سارے ڈیم دریا کی سلٹ یا مٹی سے بھر چکے ہیں۔ ان ڈیموں میں پانی جمع کرنے کی جتنی گنجائش تھی وہ اب نہیں رہی، یہ ایک اور بڑی وجہ ہے، اب پاکستان کو مسلسل پانی کی قلت کا سامنا ہے۔‘
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ میں ملک میں بارشیں بھی معمول سے 62 فیصد کم تھیں۔
’سندھ کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا‘
سندھ کے کاشت کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے مارچ اور اپریل میں ہونے والی پانی قلت کا سب سے زیادہ نقصان سندھ کو اٹھانا پڑتا ہے۔
کاشت کاروں کی تتظیم کے رہنما محمود نواز شاہ کے مطابق: ’چشما سے پانی چھوڑنے کے بعد پانی کو گڈو بیراج پہنچنے میں تین دن لگتے ہیں، سکھر بیراج تک آنے میں چار دن اور کوٹڑی بیراج تک آنے میں چھ سے سات دن لگتے ہیں، اور جب یہ پانی نہروں میں چھوڑا جاتا ہے تو کھیتوں تک پہینچنے میں دس دن لگ جاتے ہیں۔ جب ایک پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے تو پیچھے سے قلت شروع ہوجاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’سندھ میں نہریں 15 دن بند رہنے کے بعد ایک ہفتے کے لیے کھولی جاتی ہیں۔ اس وقت سندھ کو سرکاری طور پر 51 فیصد پانی کی کمی ہے، مگر سندھ کو نقصان 70 فیصد ہے۔‘
محمود نواز شاہ کے مطابق پاکستان میں چند سالوں سے مارچ کے آخر سے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر اس ساری صورت حال میں سندھ کا مسئلہ سب سے منفرد ہے۔
ان کے بقول پورے پاکستان میں تمام فصلوں کی کاشت سب سے پہلے سندھ سے شروع ہوتی ہے اور فصل بھی سب سے پہلے سندھ میں ہی پکتی ہے۔ پورے ملک میں پانی کی قلت اپریل سے شروع ہوئی ہے، مگر سندھ میں پانی کی قلت تو 15 مارچ سے پہلے ہی شروع ہوگئی ہے۔
ان کے مطابق سندھ میں اس وقت چھ لاکھ ایکڑ پر گنے کا فصل لگی ہوئی ہے، جبکہ تین لاکھ ایکڑ پر آم اور دیگر پھلوں کے باغات لگے ہوئے، جو مارچ کی ریکارڈ توڑ گرمی کے باعث متاثر تھے اور موجودہ پانی کی کمی نے ان کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس کے ساتھ سندھ میں کیوں کہ خریف کے فصلیں پاکستان بھر میں سب سے پہلے لگتی ہیں، وہ پانی کی کمی کے باعث دیر سے لگیں گی۔ سندھ میں 14 لاکھ ایکڑ پر کپاس کی فصل اور چاول لگنے ہیں، جو پانی کی کمی کے باعث شدید متاثر ہیں۔‘