کابل کے میکرویان محلے میں اتوار کو اپنی دوست کے ساتھ خریداری کے دوران خوف اور غصے کی کیفیت میں مبتلا عروضہ گشت کرنے والے طالبان پر بھی نظر رکھے ہوئے تھیں۔
ریاضی کی ٹیچر خوفزدہ تھیں کیوں کہ ان کی بڑی شال، ان کے سر پر لپٹی ہوئی تھی اور ہلکے بھورے رنگ کا لمبا کوٹ طالبان حکومت کے حالیہ حکمنامے کے مطابق نہیں تھا۔ ان کا پورا چہرہ نظر آرہا تھا۔
عروضہ، جنہوں نے پورا نام نہ ظاہر کرنے شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کی، نے طالبان کی ہدایت کے مطابق مکمل برقع نہیں پہنا تھا۔ طالبان نے ہفتے کو نئے طرز لباس کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کی صرف آنکھیں نظر آنی چاہییں۔
اتوار کو افغان دارالحکومت کابل میں خواتین نے روایتی قدامت پسند مسلم لباس پہنا ہوا تھا۔ زیادہ تر نے روایتی حجاب پہنا تھا، جو ہیڈ سکارف اور لمبے لباس یا کوٹ پر مشتمل ہوتا تھا، لیکن طالبان رہنما کی ہدایت کے مطابق بہت کم نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ برقع اور سر سے پاؤں تک جالی والا برقع پہننے والی خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔
اپنے لمبے کالے کوٹ کے نیچے سونے کی چوڑیاں پہننے والی شبانہ نے کہا کہ افغانستان میں خواتین حجاب پہنتی ہیں اور بہت سی برقعہ پہنتی ہیں لیکن طالبان کے اس حکم کا مقصد تمام خواتین کو غائب کرنا ہے۔
عروضہ نے کہا کہ طالبان حکمران افغانوں کو اپنا ملک چھوڑنے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ:’ ہم انسان ہیں، اگر وہ ہمیں ہمارے انسانی حقوق نہیں دینا چاہتے تو میں یہاں کیوں رہوں؟‘
بات کرنے کے لیے کئی خواتین رک گئیں۔ ان سب نے تازہ ترین حکم کو چیلنج کیا۔
پروین نامی خاتون نے کہا کہ:’ہم جیل میں نہیں رہنا چاہتے۔‘
عوام طالبان کے حکم پر بنٹی نظر آتی ہے۔ جہاں عوام کے کچھ حلقے اس سے متفق ہیں وہیں کچھ خواتین نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔
کابل میں ظریفہ یعقوبی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم حجاب کے بغیر نہیں ہیں اور ہم انہیں اپنے آپ کو پردے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ حجاب اور پردے کا تعلق افغان عوام کی ثقافت اور روایات سے نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد میں بسنے والے قبائل کے لوگوں کی ثقافت اور روایات ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ پردہ نہ تو اسلامی حجاب ہے اور نہ ہی افغان اسلامی ثقافت بلکہ طالبانی حجاب ہے اور میں ایک لڑکی کی حیثیت سے اس طرح کے احکامات کو قبول نہیں کرتی۔‘
قیادت میں اتفاق نہیں؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان کے رہنما ہبت اللہ اخونزادہ کے حکم نامے میں یہاں تک تجویز دی گئی ہے ک خواتین بلا ضرورت اپنے گھر سے نہ نکلیں اور ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے مرد رشتہ داروں کے لیے سزائیں بیان کی گئی ہیں۔
یہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا جو گذشتہ اگست میں طالبان کے قبضے سے قبل دو دہائیوں سے نسبتاً آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اخونزادہ نے قبائلی گاؤں کی روایات اختیار کی ہیں جہاں اکثر لڑکیوں کی شادی بالغ ہوتے ہی کردی جاتی ہے اور شاذ و نادر ہی اپنے گھروں سے نکلتی ہیں۔ وہ انہیں مذہبی فریضہ قرار دیتے ہیں۔
اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ طالبان خواتین کو پبلک لائف سے مکمل غائب کرنا چاہتے ہیں۔
— Malala (@Malala) May 9, 2022
طالبان جیسے ہی باغیوں سے انتظامیہ بننے کی کوشش رہے ہیں وہ عملیت پسندوں اور سخت گیروں کے درمیان تقسیم ہو چکے ہیں۔
مزید برآں ان کی حکومت معاشی بحران سے نمٹ رہی ہے۔ اور طالبان کی مغربی ممالک سے امداد لینے اور اپنی حکومت تسلیم کروانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے زیادہ نمائندہ حکومت تشکیل نہیں دی اور لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کم کر دیے ہیں۔
تحریک میں موجود سخت گیر اور عملیت پسندوں نے اب تک کھلے عام ایک دوسرے کی مخالفت سے گریز کیا ہے۔
اس کے باوجود مارچ میں نئے تعلیمی سال کے موقع پر یہ تقسیم اس وقت مزید گہری ہوگئی جب اخونزادہ نے آخری لمحات میں فیصلہ جاری کیا کہ چھٹی جماعت مکمل کرنے کے بعد لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
تعلیمی سال کے آغاز سے پہلے کے ہفتوں میں طالبان کے اعلیٰ حکام نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ تمام لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت دی جائے گی۔ اخونزادہ نے زور دے کر کہا کہ بڑی لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت دینا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
قیادت سے ملاقات کرنے والے اور ان کے اندرونی جھگڑوں سے واقف ایک ممتاز افغان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی بتایا کہ کابینہ کے ایک سینیئر وزیر نے قیادت کے حالیہ اجلاس میں اخونزادہ کے خیالات پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
حکومت کے سابق مشیر توریک فرہادی نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ طالبان رہنماؤں نے عوامی سطح پر نہ جھگڑنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ تقسیم کے بارے میں کسی بھی تاثر سے ان کی حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فرہادی نے کہا کہ متعدد معاملات میں قیادت نمبرز کے لحاظ سے برابر نہیں ہے لیکن وہ سب جانتے ہیں کہ اگر وہ جڑے نہ رہے تو سب کچھ ٹوٹ سکتا ہے۔ اس صورت میں ان کی ایک دوسرے کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو سکتی ہیں۔
فرہادی نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے بڑوں نے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بشمول ایسے فیصلوں کے جن پر اتفاق نہیں ہوتا۔
رواں ماہ کے اوائل میں سراج الدین کے چھوٹے بھائی انس حقانی جو طاقتور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں، نے مشرقی شہر خوست میں ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ لڑکیاں تعلیم کی حقدار ہیں اور وہ جلد ہی سکول واپس آجائیں گی- حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کب۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قوم کی تعمیر میں خواتین کا کردار ہے۔
اس وقت انس حقانی نے کہا تھا: ’آپ کو بہت اچھی خبر ملے گی جس سے سب خوش ہوں گے۔۔۔ یہ مسئلہ آنے والے دنوں میں حل ہو جائے گا۔‘
نیویارک کے نیو سکول کے وزیٹنگ سکالر اور افغانستان کی امریکن یونیورسٹی کے سابق لیکچرر عبید اللہ نے کہا:’یہ احکامات افغانوں کی ایک پوری صنف اور اس نسل کو مٹانے کی کوشش ہیں جو ایک بہتر دنیا کا خواب دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔‘