پولیس کے مطابق کراچی کی بندرگاہ پر لنگرانداز سویا بین سے لدے بحری جہاز پر کام کرنے والے دو مزدور ہلاک ہوگئے ہیں۔ وزارت بحری امور کے مطابق یہ واقعہ مبینہ طور پر دم گھٹنے سے پیش آیا جب کہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔
کیماڑی پولیس کے ایس ایس پی فدا حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سویا بین لے کر آنے والے بحری جہاز وی ہائے پر کام کے دوران دو مزدور جہاز کے نچلے ترین حصے میں داخل ہوگئے جس کے باعث وہ ہلاک ہوئے البتہ سویا بین کی آف لوڈنگ سے دیگر افراد بھی متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ جہاز 29 اپریل کو کراچی کی بندرگاہ پر پہنچا اور تب سے اس میں سے سویا بین کی اتارنے کا کام جاری ہے۔ البتہ اس واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘
وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ پیر کی شب کراچی کی بندرگاہ کے ویسٹ وہارف پر رات آٹھ بجے پیش آیا۔ غلطی سے جہاز پر کام کرنے والے دو مزدور جہاز کے غلط ہیچ میں داخل ہوگئے جہاں گرد کے زرات کی تعداد کافی زیادہ اور آکسیجن کی بہت کمی تھی جس کے باعث یہ ممکن ہے کہ دونوں مزدور دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے ہوں۔‘
’مزدور کام کے دوران جہاز کے بالکل نچلے حصے میں چلے گئے تھے جہاں سویابین تھا۔ مزدروں کے واپس نہ آنے پر تلاش شروع کی گئی تھی۔ اس جہاز کے ایک مزدور نے اطلاع دی تھی کہ دو مزدور نیچے ہیچ میں پڑے ہیں۔‘
’دونوں لاشوں کو باہر نکال لیا گیا ہے۔ مزدوروں کے ہلاکت کے حوالے سے حقائق کا تعین کرنے کے لیے جہاز کے عملے، اسٹیوڈورز اور دیگر متعلقہ افراد کے بیانات ریکارڈ کر لیے گئے ہیں اور اور معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔ تقریبا 24 گھنٹوں میں اس معاملے کی رپورٹ پبلک کردی جائے گی۔‘
کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے ترجمان شارق امین فاروقی کے مطابق ’وی ہائے نامی جہاز 29 اپریل کو کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔ یہ جہاز برازیل سے 62 ہزار 273 میٹرک ٹن سویابین لے کر آیا تھا جس میں سے 12 ہزار 426 میٹرک ٹن سویا بین نکال لیا گیا ہے جب کہ 49 ہزار 847 میٹرک ٹن اب بھی باقی ہے۔‘
کس سویا بین سے گیس خارج ہوتی ہے؟
ضیاالدین ہسپتال کیماڑی کے ڈاکٹر عاقل کا کہنا ہے کہ ’سویا بین سے نہ ہی کسی قسم کی زہریلی گیس خارج ہوتی ہے اور نہ ایسے کوئی زرات جو کہ مضر صحت ہوں۔‘
’یہ معاملہ بظاہر دم گھٹنے کا لگ رہا ہے، جہاز کی نچلی شافٹ میں ہوا کا رخ نہ ہونے کے باعث مزدوروں کو سانس لینے میں مشکل پیش آئی ہوگی مگر سویا بین سے کسی قسم کے اخراج کے باعث دم نہیں گھٹ سکتا۔‘
ان کے مطابق: ’اسی صورت میں ان افراد کو زیادہ مشکل اور سانس لینے میں تکلیف پیش آتی ہے جو دمے کے مریض ہوتے ہیں یا انہیں کوئی اور سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ اس سے قبل بھی کراچی پورٹ پر ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں سویا بین کی آف لوڈنگ کے بعد ایک ڈسٹ کلاؤڈ بن گیا تھا جس کے باعث بندرگاہ کی ارد گرد آبادی میں لوگوں کو سانس کی تکلیف پیش آئی تھی۔ اس وقت زیادہ تر مریض ضیاالدین ہسپتال کیماڑی ہی آئے تھے مگر ان میں بھی زیادہ تر دمے کے ہی مریض تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر عاقل کا کہنا تھا کہ ’حالیہ واقعہ پچھلے واقعے سے مختلف ہے مگر اس بار بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سویا بین مضر صحت ہے یا اس سے کوئی مخصوص قسم کی گیس خارج ہوتی ہے۔ اگر اس کی آف لوڈنگ میں تھوڑی احتیاط برتی جائے تو ان واقعات میں کمی آسکتی ہے۔‘
کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے ڈاکٹر محمد علی ذرداری نے بتایا کہ ’سویا بین سے کوئی خاص گیس خارج نہیں ہوتی اور نہ ہی بڑی بڑی تعداد میں نکالے جانے والے سویا بین سے اٹھنے والی گرد میں کوئی زہریلے زرات ہوتے ہیں۔‘
’کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پروٹوکول کے مطابق مزدوروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سویا بین یا کسی اور چیز کی آف لوڈنگ کے وقت ماسک ضرور پہنیں۔ ماسک کے ذریعے دمے کے مریضوں یا عام افراد کو زیادہ گرد و غبار والی جگہوں پر سانس لینے میں آسانی ہوتی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اصولی طور پر مزدوروں کو پی پی ایز یعنی پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ پہننا چاہیے جو کہ کرونا کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز پہنتے ہیں۔ مگر گرمی اور جہاز کے عملے کے لیے پی پی ایز کی غیر موجودگی کے باعث یہ مشکل ہے۔ البتہ ماسک کے ذریعے کافی حد تک بچاؤ کیا جاسکتا ہے۔ ایک معمولی سرجیکل ماسک بھی کافی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔‘
سویا بین سے متعلق کراچی بندرگاہ پر اس سے قبل کے واقعات
فروری 2020 میں کراچی کی بندرگاہ پر ایک لنگر انداز بحری جہاز سے سویابین اتارنے کے دوران بننے والے ایک ڈسٹ کلاؤڈ کے باعث قریبی آبادیوں ریلوے کالونی، مسان چوک اور جیکسن مارکیٹ کے لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ڈیفنس، کلفٹن اور باتھ آئی لینڈ میں ایک ناگوار بدبو پھیل گئی تھی جس کے باعث اس علاقے کے سکولوں کی چھٹی کا اعلان بھی کردیا گیا تھا۔
دو سال قبل پیش آنے والے واقعے میں تقریبا 234 افراد متاثر ہوئے تھے جب کہ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 14 تھی۔
اس واقعے کے بعد سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی گئی تھی جس کے مطابق کراچی بندرگاہ پر سویا بین اور پیٹ کوک کی ہینڈلنگ کے دوران کاربن مونو آکسائیڈ اور زہریلے ذرات کے پیرامیٹرز صوبائی ماحولیاتی معیار کی مقررہ حد سے تجاوز کر گئے تھے جس کے باعث یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق حادثے کے دوران بندرگاہ کے نذدیک علاقے کی فضا نقصان دہ زرات سے آلودہ تھی۔