برطانیہ: بینائی سے محروم پاکستانی نژاد وکیل کی تصویر وائرل

برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد وکیل حلیمہ سعدیہ فاروق نے بیرسٹر کے لباس زیب تن کیے سفید چھڑی تھامے اپنی تصویر ٹوئٹر پر لگائی تو وہ وائرل ہو گئی۔

حلیمہ سعدیہ فاروق بینائی سے محروم پاکستانی برطانوی شہری ہیں اور حال ہی میں بیرسٹر کے مخصوص لباس میں ان کی ایک تصویر ٹوئٹر پر وائرل ہوئی جس میں انہوں نے سفید چھڑی تھام رکھی تھی۔

حلیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میں نے یہ تصویر گذشتہ ماہ لی تھی جب مجھے انگلینڈ اور ویلز کی بار میں بلایا گیا تھا۔‘

حلیمہ نے اس روز کی روداد بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنی پروفیشنل تصاویر لے رہے تھے جس میں آپ بیرسٹر والی وگ اور کالا گاؤن پہنتے ہیں۔‘

حلیمہ نے کہا کہ اس روز ’اپنے ہاتھ میں تعلیمی سند کا مصنوعی رول پکڑنے کی بجائے میں نے سفید چھڑی پکڑنے کو ترجیح دی۔‘

اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی حلیمہ نے تصویر لگاتے ہوئے لکھا کہ ’یہ تصویر بطور پاکستانی نژاد برطانوی خاتون جو بینائی سے محروم ہے، بہت معنی رکھتی ہے۔ جب میں اپنی کال پر پروفیشنل تصویر لے رہی تھی تو میں نے یقینی بنایا کہ میری سفید چھڑی بھی تصویر میں نظر آئے کیوں کہ قانونی طور پر نابینا بیرسٹر کے سفر میں اس چھڑی کا کردار نمایاں ہے۔‘

حلیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یقینی طور پر چھڑی سفید نہیں بلکہ گلابی تھی کیوں کہ میں نے حال ہی میں اسے اپنی پسند کے مطابق بنوا لیا تھا۔ لیکن مجھے لگا کہ تصویر لیتے ہوئے چھڑی کا ہاتھ لینا بہت ضروری ہے۔‘

حلیمہ نے برونیل یونیورسٹی لندن سے قانون کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے دی یونیورسٹی آف لا سے قانون کی اعلیٰ ڈگری ایل ایل ایم حاصل کی ہے۔

حلیمہ گذشتہ ایک سال سے برطانیہ میں ایک سرکاری محکمے ’پولیس اینڈ کرائم کمیشنر آفس‘ میں کیس ورک آفیسر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

حلیمہ نے بتایا کہ ’پیدائشی طور پر ہی میری بینائی کمزور تھی۔ قانونی طور پر میں نابینا ہوں۔ میں کبھی ڈرائیونگ سمیت بہت سے ایسے کام نہیں کر سکوں گی کیوں کہ قانونی طور پر میں نابینا ہوں۔‘

حلیمہ کے خاندان کا تعلق کراچی سے ہے اور انہیں پہلی مرتبہ وہیں اس بات کا علم ہوا کہ ان کی نظر بہت کمزور ہے۔

حلیمہ نے اس دور کی یاد انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں پاکستان گئی ہوں۔ میری امی کا خاندان کراچی سے ہے۔ میری آنکھوں کا قصہ پاکستان سے ہی شروع ہوا تھا۔ وہاں ہی میرے نانا ابو نے محسوس کیا تھا کہ مجھے صحیح سے نظر نہیں آتا۔‘

حلیمہ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے کچھ پیسے فرش پر گرا دیے تھے اور مجھے انہیں تلاش کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ میرے اس عمل سے میرے نانا ابو کو اندازہ ہو گیا کہ میری نظر کمزور ہے۔‘

حلیمہ نے بتایا کہ اس کے بعد میرے میڈیکل ٹیسٹ ہوئے جس میں اس بات کی تصدیق ہو گئی۔

انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر کہ بیرسٹر بننے کا راستہ ہی کیوں اختیار کیا، حلیمہ نے بتایا کہ ’ بیرسٹر یہاں ایک قسم کا وکیل ہوتا ہے۔ جو عدالت میں جا کر کھڑے ہو کر بات کرتا ہے۔‘

حلیمہ نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا ’یہاں دو طرح کے وکیل ہوتے ہیں۔ ایک سولیسیٹر ہوتے ہیں اور دوسرے بیرسٹر جو عدالت میں کھڑے ہو کر جرح کرتے ہیں۔‘

حلیمہ نے ہلکے قہقہے کے ساتھ بتایا کہ ’مجھے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے اس لیے میں نے بیرسٹر بننے کا راستہ اختیار کیا ہے۔‘

حلیمہ نے بتا کہ ’گذشتہ ماہ میں انگلینڈ اور ویلز کی بار میں داخل ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے سارے امتحان پاس کر لیے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل معلومات کے مطابق یہ اعزاز حلیمہ کے علاوہ چند ہی ایسے پاکستانی نژاد افراد کو حاصل ہے جو بینائی سے محروم ہوں۔

اس ضمن میں مستند اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے دی بار کونسل سے رابطہ کیا جو انگلینڈ اینڈ ویلز کے تمام بیرسٹرز کی نمائندہ تنظیم ہے۔

بار کونسل کی کمیونی کیشن مینیجر سارہ کواناغ نے بتایا کہ ’ان کے پاس موجود اعداد و شمار صرف اس چیز کو ظاہر کرتے ہیں کہ کتنے بیرسٹرز کو جسمانی معذوری کا سامنا ہے۔ ہم معذوری کی نوعیت کے حوالے سے نشاندہی نہیں کرتے۔‘

سارہ کے مطابق ’یکم مارچ 2022 تک اعداد و شمار کے مطابق انگلینڈ اینڈ ویلز میں کُل 17 ہزار 339 بیرسٹرز ہیں جن میں سے 640 بیرسٹرز کو روزانہ کی بنیاد پر کسی نا کسی جسمانی معذوری کا سامنا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے استفسار پر سارہ نے بتایا کہ ’روزانہ کی بنیاد پر جسمانی معذوری کا سامنا کرنے والے بیرسٹرز میں سے 272 خواتین بیرسٹرز ہیں۔‘

سارہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ سابق قومیت کی بنیاد پر بار کونسل سے منسلک بیرسٹرز کی تشخیص نہیں کرتے اس لیے وہ یہ نہیں بتا سکتیں کہ معذوری کا سامنا کرنے والی ان 272 خواتین بیرسٹرز یا 368 مرد بیرسٹرز میں سے کتنے پاکستانی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے حلیمہ سے سوال کیا کہ کیا وہ پہلی پاکستانی نژاد بیرسٹر ہیں جو بینائی سے محروم ہوں تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں ذاتی طور پر تو کسی کو نہیں جانتی لیکن میرے علم میں ہے کہ شاید ایک یا دو مزید پاکستانی نژاد خواتین بیرسٹرز ہیں جو بینائی سے محروم ہوں۔‘

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حلیمہ نے کہا کہ ’جب میں سکول میں تھی تو مجھے نابینا ہونے پر تنگ کیا جاتا تھا۔‘

حلیمہ نے اس تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ’لوگوں کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں انہی کے سکول میں بہتر کارکردگی کیسے دکھا رہی ہوں؟ وہ سمجھتے تھے کہ شاید اساتذہ میری مدد کر رہے ہیں اور میرے کانوں میں جواب بتا دیتے ہیں۔‘

حلیمہ نے کہا کہ ’یہ بہت پریشان کن تھا کیوں کہ سولہ سال کی عمر میں آپ کو پہلے ہی بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہوتا ہے جیسا کہ سماجی دباؤ، امتحانات اور زندگی۔ اس کے ساتھ اگر کوئی آپ کو الزام دے کہ آپ حقیقت میں نابینا نہیں ہو اور آپ بہانہ بنا رہے تو۔ مجھے وہ بہت پریشان کن لگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین